اسرائیلی جارحیت – ایکسپریس اردو

    افسوس کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی غزہ پر اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ اس کے جدید جنگی طیارے اب بھی وزنی بم آبادیوں پر گرا رہے ہیں اور اس کے فوجی اندھا دھند فائرنگ کرکے نہتے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رمضان میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں مزید سیکڑوں بے گناہ فلسطینی مرد و زن اور بچے ہلاک ہوگئے ہیں۔

    7 اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک نیتن یاہو 32 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کا قتل عام کر چکا ہے مگر اب بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی ہے۔ کیا غزہ کے تمام ہی مسلمانوں کو ختم کرکے وہ دم لے گا اور مسلم ممالک نیتن یاہو اور اس کے آقا امریکا کی ملی بھگت سے مسلمانوں کی نسل کشی کے اس بھیانک منظر کا دور سے ہی نظارہ کرتے رہیں گے۔ کتنی فلسطینی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بچے مسلم حکمرانوں کو مدد کے لیے پکارتے پکارتے اسرائیلیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ فلسطینی مرد بے بس ہیں ان کی اور ان کے خاندانوں کی جانیں بچانے کے لیے کوئی مسلمان ملک نیتن یاہو کا ہاتھ نہیں روک رہا ہے۔

    لگتا ہے انھیں امریکا بہادر کا ڈر ہے کہ اگر انھوں نے اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو وہ امریکی قہر سے نہیں بچ سکیں گے۔ حزب اللہ کی بہادری کے بڑے چرچے سنے تھے کہ وہ اسرائیلیوں سے دوبدو ٹکر لے سکتی ہے وہ اسرائیل کے چھکے چھڑا سکتی ہے اب اسے کیا ہوگیا وہ کیوں ایسے آزمائشی وقت میں فلسطینیوں کی خاطر اسرائیل کی جانب پیش قدمی نہیں کر رہی۔ وہ کس وقت کا انتظار کر رہی ہے۔

    اس میں شک نہیں کہ وہ مجاہدین کی ایک پختہ منظم فورس ہے جس کے پاس تربیت یافتہ مجاہدین ہیں۔ غزہ کی جنگ سے پہلے یہ خبر آ رہی تھی کہ غزہ میں اگر اسرائیل نے جارحیت کی تو حزب اللہ اسرائیل کے خلاف فوراً ایکشن لے گی۔ کیا اچھا ہوتا جب نیتن یاہو نے غزہ کے مسلمانوں پر فضائی حملے شروع کیے تھے اور اپنے فوجیوں کو غزہ میں داخل کر کے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا تھا حزب اللہ غزہ کے شمال میں اسرائیل پر حملہ کر کے اسے حواس باختہ کرسکتی تھی۔

    حزب اللہ کے اسرائیل پر حملے کی وجہ سے وہ حماس اور حزب اللہ کا دو طرفہ حملہ ہرگز برداشت نہ کر پاتا اس طرح غزہ میں اسرائیل کی جارحیت میں مزید اضافہ نہ ہوتا۔ بہرحال حزب اللہ سے بہتر تو ’’ حوثی ‘‘ ہیں وہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مسلسل گزشتہ چھ مہینے سے نبرد آزما ہیں۔

    انھوں نے پہلے اسرائیل پر براہ راست راکٹ حملے کیے تھے مگر فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے تھے چنانچہ انھوں نے بحر احمر میں اسرائیلی اور اسرائیل سے متعلق بحری جہازوں پر حملے شروع کر دیے جو بہت کارگر ثابت ہوئے جس سے گھبرا کر اسرائیل کے محافظین امریکا اور برطانیہ فوراً حرکت میں آئے اور یمن پر تابڑ توڑ فضائی حملے شروع کر دیے مگر ان حملوں سے حوثیوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ حوثیوں نے ان حملوں سے گھبرانے کے بجائے پہلے سے زیادہ موثر حملے کیے ہیں۔ ان میں ایک جہاز ڈوب بھی چکا ہے اور کچھ جہازوں میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے ہیں جن میں کچھ اموات بھی ہوئی ہیں۔

    بدقسمتی سے امریکا نے اسرائیل کو اتنا لاڈ پیار دیا ہے اور ہٹ دھرم بنا دیا ہے کہ وہ غزہ پر جارحیت کو جارحیت ہی نہیں سمجھ رہا ہے وہ تو حماس کے نام پر معصوم شہریوں کا روز قتل عام کر رہا ہے مگر اسے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

    اس کی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں کئی قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں مگر افسوس کہ سب کو ہی اس کے آقا امریکا نے ویٹو کر دیا ہے۔ اب فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانے کے لیے اسلامی ممالک کو ہی کردار ادا کرنا پڑے گا اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام کی امیدیں ترک کر دینے کے بجائے خود ہی اس سلسلے میں ہی کوششیں کرنا ہوں گی۔