اسوۂ رسول کریم ﷺ کامیابی کی ضمانت

    ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس دور زوال میں ہمارے ہاں مختلف مکاتب فکر اور پلیٹ فارمز پر حضور اکرم ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر بحث و مباحثہ اور گفت و شنید تو کی جاتی ہے، لیکن اس سے سماجی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی راہ نمائی نہیں لی جاتی اور نہ اس کو بہ طور نظام عمل میں لانے کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے۔

    دنیا کی کوئی قوم یا جماعت اس وقت تک کام یابی حاصل نہیں کرسکتی، جب تک وہ اپنے راہ بر کی زندگی سے واقفیت اور عملی مطابقت نہ رکھتی ہو۔

    اس تناظر میں بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اس کامل و اکمل ہادی و راہ نما ﷺ کی سیرت سے آگہی حاصل کریں کہ جس نے ہمیں زندگی کے ہر پہلو پر مکمل طور پر راہ نمائی فراہم کی اور اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ تمہارے لیے اﷲ کے رسول ﷺ میں اچھا نمونہ یعنی آپؐ کا عملی کردار اپنانا ہے۔

    جب تک ہم حضور اکرم ﷺ کی سیرت سے مکمل واقفیت حاصل نہ کرلیں، تب تک ہم اپنے نظریے اور ایمان کو بھی مکمل طور پر واضح نہیں کرسکتے، کیوں کہ آپؐ کی سیرت مبارکہ ہی ہمارے نظریے اور ایمان کا عملی مظہر ہے اور حضور ﷺ کی سیرت مبارکہ ہی ہمارے لیے ایک ایسا نمونہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم زمین پر بسنے والی تمام اقوام و ملل کے اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی قوانین حیات کو انسانی بنیادوں پر پرکھ سکتے ہیں کہ وہ انسانوں کے لیے کیوں کر مفید ہیں۔

    خواہ وہ اﷲ تعالی سے قُرب حاصل کرنے کے طریقے مثلا نماز، روزہ، عبادات کا مکمل نظام ہو یا دنیاوی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے طریقے یعنی سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، عائلی زندگی کے قوانین، جنگ و جدل کے اصول اور انسان دوستی و دشمنی کے اصول و قوانین ہوں۔ ال غرض حضور اکرم ﷺ ایک کامل و اکمل ترین شخصیت ہیں کہ جن کی حیات مبارکہ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر راہ نمائی فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

    حضور اکرم ﷺ نے کام یاب زندگی گزارنے اور دنیاوی و اخروی حوالے سے ترقی حاصل کرنے کے جن اصولوں کو دنیا میں متعارف کروایا ہے، ان کو اپنایا جائے اور منظم و شعوری جدوجہد کے ساتھ اپنے معاشرے میں ان کو غالب کرنے کی سعی و کوشش کی جائے۔

    اس کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کا حکمت اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ ہمیں حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ سے ہر پہلو پر مکمل راہ نمائی حاصل کرنا چاہیے، خواہ وہ خدائے عزوجل سے تعلق قائم کرنے کے حوالے سے عبادات کا مکمل نظام ہو یا قوموں کے نظام ہائے سیاسی و معاشی چلانے ہوں، یا اخوت، ہم دردی اور بھائی چارگی کے پھیلانے کا عمل ہو، بہ جائے اس کے کہ ہم سیرت النبی ﷺ کو محض چند عبادات تک محدود کردیں یا محض اقترابات میں مقید کردیں یا صرف حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریفات کو منشائے حیات بناتے ہوئے آپ ﷺ کے عملی اور انقلابی کردار کو پس پشت ڈال کر چند سنتوں کو ہی کامل دین سمجھ بیٹھیں۔

    حضور اکرم ﷺ جس کامل و اکمل دین فطری قرآنی اصول حیات کا تعارف کراتے تھے، تو محنت اور جدوجہد سے اس کو اپنے معاشرے میں غالب بھی کرتے تھے اور اس سے نتائج بھی اخذ کرتے تھے۔ مگر آج ہم سیرت رسول کریم ﷺ کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر سیرت النبیؐ پر کسی درجے تک عمل کرتے بھی تو محض رسمی، انفرادی اور غیر شعوری بنیادوں پر، جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کے اندر اجتماعی حوالے سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔

    ہم سیرت النبی ﷺ کو محض اپنی حد تک انفرادیت میں محدود کرلیتے ہیں، جب کہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا ہر ایک پہلو ہمیں اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے کہ علم، سوچ و فکر اور عمل میں ہمیشہ اجتماعیت کو مدنظر رکھا جائے، اسی بنیاد پر حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا اگر بہ نظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ نے اپنے نظریے کے مطابق اپنے معاشرے کے ہر شعبے میں بہ طور نظام حیات دور رس تبدیلیاں کی تھیں اور ایک ایسا معاشرہ کہ جس کا تعلق خدا سے کٹ چکا تھا۔

    جس میں دنیاوی معاملات میں دھوکا دہی، چوری، زنا، ظلم و ناانصافی، حقوق کو غصب کرنا اور نسلی بنیادوں پر بدترین امتیاز پایا جاتا تھا، ال غرض اقترابات و ارتفاقات کے فطری قوانین حیات زنگ آلود ہوچکے تھے، ایسے ماحول اور نظام میں حضور اکرم ﷺ نے آکر ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کیا اور انسانیت کی دبی ہوئی صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے عدل و انصاف پر مبنی ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیا۔

    اس سے معلوم ہُوا کہ نبوّت کا مقصد محض چند عبادات یا چند اخلاقیات کا سبق دینا نہیں ہے، بل کہ معاشرے کے ہر شعبۂ حیات میں مکمل طور پر ظلم کے نظام کو ختم کرکے عدل و انصاف کے نظام کا قیام ہے۔

    جیسا کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے انبیائے کرامؑ کی نبوت اور رسالت کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے انبیاء علیہم السلام کو واضح نشانیاں (عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے اصول) دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ انسانیت انصاف پر قائم رہے۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کو ارشاد فرمایا کہ فرعون کی طرف جاؤ کیوں کہ اس نے سرکشی اور ظلم و استبداد کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوم میں اسی مقصد کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتے ہوئے ایک سماجی اور معاشرتی تبدیلی کی دعوت دی ہے۔

    اور اسی مقصد کے حصول کے لیے نبی آخر الزماں رسول کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جدوجہد کی اور سب سے پہلے اپنی سرزمین پر ایک تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے اپنی قوم کے ظالم طبقے ابوجہل، عتبہ، شیبہ کے انسانیت کش نظام کو ختم کیا اور اس راہ میں جتنی تکلیفیں آپؐ کو اٹھانا پڑیں اس سے کوئی باشعور مسلم یا غیر مسلم نابلد نہیں ہے، اس کے بعد دوسرے ممالک کی طرف رخ کیا اور صحابہ کرام ؓ کی جماعت کے ذریعے مشرق و مغرب میں انسانی بنیادوں پر ایک عادلانہ نظام قائم کیا۔

    آج کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ اس دور زوال میں ہمارے ہاں مختلف مکاتب فکر اور پلیٹ فارمز پر حضور اکرم ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر بحث و مباحثہ اور گفت و شنید تو کی جاتی ہے، لیکن اس سے سماجی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی راہ نمائی نہیں لی جاتی اور نہ اس کو بہ طور نظام عمل میں لانے کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے، جب کہ محض کسی اعلی شخصیت کی زندگی پر بہترین مکالمے کرلینے سے اس کی عملی زندگی کھل کر سامنے آسکتی ہے اور نہ اس کے مطابق عمل کا کوئی طریقہ کار اپنایا جاسکتا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے ملک پاکستان کو ستّر سال گزر جانے کے باوجود نبی آخر الزمان ﷺ کو ماننے والی اور آپؐ کے نام پر جان قربان کرنے والی قوم میں سیرت نبویؐ کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔

    اس تناظر میں آج کے دور زوال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت نبی ﷺ اور اس کے تقاضوں کا صحیح شعور حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے ملک میں قائم فرسودہ، ظالمانہ اور سیرت نبوی ﷺ سے متصادم و متضاد نظام کو ختم کر کے سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد اور کوشش کی جائے، تاکہ ہم اپنی دنیا و آخرت کو جنت بنا سکیں اور انسانیت سکون کا سانس لے سکے، یہی انسانیت کی معراج ہے اور تبھی ہم حضور اکرم ﷺ کی وراثت کا صحیح حق ادا کرسکتے ہیں۔

    The post اسوۂ رسول کریم ﷺ کامیابی کی ضمانت appeared first on ایکسپریس اردو.