الوداع شاہ صاحب !

    بُجھ رہے ہیں محبتوں کے چراغ

    رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں دوست

    اقلیمِ صحافت کے بے تاج بادشاہ نادر شاہ عادل اپنے بیشمار چاہنے والوں کو دل برداشتہ چھوڑکر اِس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

    پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

    شاہ صاحب کا تعلق اُس نسل سے تھا جس کے نزدیک صحافت عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔ شاہ صاحب محض ایک صحافی ہی نہیں بلکہ ایک مثالی انسان بھی تھے، ایسے دیدہ ور روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ہمہ جہت اور ہمہ صفت شاہ صاحب بیشمار خوبیوں کا پیکر تھے۔ اُن کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اُس کا پُر ہونا بہت مشکل ہے۔

    اعلیٰ ظرفی اور شائستگی اُن کی شخصیت کی نمایندہ خصوصیات تھیں۔ وطنِ عزیز کے منفرد روزنامہ ایکسپریس میں انھوں نے ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دیں جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ شاہ صاحب صحافتی حلقوں میں’’ شاہ جی‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن خاکسار نے اُنھیں روزِ اول سے تادمِ آخر ’’شاہ صاحب‘‘ کے نام سے ہی مخاطب کیا۔ میرا اور اُن کا ساتھ ایک طویل مدت پر مشتمل ہے۔ یہ رُبع صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔

    ٹیلیفون پر اُن کی کھَرج دار آواز ایک جادو سا جگاتی تھی۔ اِس وقت جب کہ یہ کالم سپرد ِ قلم کیا جا رہا ہے اُن کی گمبھیر آواز کانوں میں بازگشت کر رہی ہے اور آنکھوں کے سامنے جیسے ایک فلم چل رہی ہو۔

    شاہ صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور اُن کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جس میں ہمارے کئی دوست بھی شامل تھے، وہ وسیع المطالعہ اور جہاں دیدہ شخص تھے۔ اُن کی شخصیت کی تعمیر میں بہت سے عوامل کار فرما تھے۔ حالات اور واقعات پر اُن کی نظر بہت گہری تھی جو اُن کی تحریروں سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ صحتِ الفاظ پر اُنھیں غیر معمولی عبور حاصل تھا۔ تلفظ ایسا کہ گویا لکھنو یا دلی والے ہوں۔ اکثر و بیشتر اُن کی رَس بھری گفتگو طبیعت کو تر و تازہ کر دیتی تھی۔

    اپنے کالم کے حوالے سے میرا اُن سے رابطہ رہتا تھا لیکن کبھی کبھار یوں بھی ہوتا تھا کہ میں کالم پیش کرنے کے بہانے خود اُن کے پاس چلا جایا کرتا تھا جس پر وہ برجستہ فرماتے تھے کہ ’’ ارے صاحب آپ نے زحمت کیوں فرمائی۔‘‘ استقبالیہ سے جب اُنھیں میری آمد کی اطلاع ہوتی تو وہ اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود اُٹھ کر چلے آتے اور اِس سے پہلے کہ سلسلہ گفتگو کا آغاز ہو چائے کی پیالی میز پر آجاتی تھی۔

    اُن کی مہمان نوازی کو میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ اُن کے اِس طرزِعمل سے ایکسپریس کے بانی ایڈیٹر خلد آشیانی نیر علوی صاحب کی یاد تازہ ہوجاتی تھی جن کی وضع داری کا یہی عالم تھا۔ایسے لوگ اب عنقا ہورہے ہیں۔

    ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں

    ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

    ایسے نابِغہ روزگار لوگوں کا اب قحط پڑا ہوا ہے۔ سچائی اور صاف گوئی شاہ صاحب کی ایک قابلِ ذکر خصوصیت تھی لیکن کیا مجال جو اِس معاملے میں کبھی سلیقہ اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے چُھوٹا ہو۔ شاہ صاحب ایک چھتنار درخت کی طرح سایہ دار تھے۔ وہ اپنے جونئیرزکی تربیت کرنے میں بخل سے ہرگزکام نہیں لیتے تھے، وہ ایک ایسا گہرا کنواں تھے جس میں چاہے جتنے بھی ڈول ڈالو لیکن کیا مجال جو اُس میں پانی کی کمی آئے۔

    اپنے سینئیرز کا انتہائی احترام کرنا اُن کا طرہِ امتیاز تھا۔ اکثر لوگوں میں اپنی لیاقت اور تجربے کی وجہ سے احساسِ برتری پیدا ہوجاتا ہے لیکن شاہ صاحب کا معاملہ بالکل مختلف تھا، وہ اُس درخت کی مانند تھے جس میں پھل لگنے کے بعد جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔اُن کی عظمت کا یہ پہلو قابلِ تقلید ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہم عصر اُنھیں بنظرِ حسد دیکھنے کے بجائے رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے، اگر شاہ صاحب کے منصب پرکوئی اور فائز ہوتا تو یہ کہہ دیتا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا لیکن اُن کی مزاجی کیفیت یہ تھی کہ جائے استاد خالی است

    دنیا داری سے بے نیاز شاہ صاحب کے لبوں پر دمِ رخصت یہی رہا ہوگا:

    فقیرانہ آئے صَدا کر چلے

    میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

    شاہ صاحب کی اعلیٰ نسبی مشکی ہرن کی مانند تھی جس کا وجود اپنی مہکار سے ماحول کو مسحور و مخمور کردیتا ہے۔ اُن کی زندگی ایک جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔

    اِس لحاظ سے اُنھیں سیلف میڈ انسان کہا جاسکتا ہے۔ نامساعد حالات کا جواں مردی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا اُن کی شخصیت کا خاصہ تھا۔خود داری اُن کی سرشت کا جزوِ لاینفک تھی۔شاہ صاحب ایک طویل عرصے سے علیل تھے۔ اُن کے جسمِ خاکی کو میوہ شاہ قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

    حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

    The post الوداع شاہ صاحب ! appeared first on ایکسپریس اردو.