ایک دُوراَندیش مفکر چودھری رحمت علی

    ’’جہاں تک مفادپرستوں کا تعلق ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا یہ پیغام اُن کی نئی دھمکیوں اور اِیذا رسانی [Persecution] کے مختلف اقدامات کا آخری جواب ہوگا، جن کے ذریعے وہ میری اُس نکتہ چینی کو روکنا چاہتے ہیں جو مَیں نے اُن کے کیے گئے، نہ کیے گئے اور غلط کیے گئے اعمال کی وجہ سے اُن پر کرتا رہتا ہوں۔

    وہ شیخی مارتے پھِرتے ہیں کہ اَب اُن کے آقاؤں نے اُن کے اختیارات میں اضافہ کر دیا ہے، اس لیے اَب وہ میرے کام کو مکمل طور پر ختم کرسکتے ہیں اور مجھ پر دباؤ ڈال کر مجھے ہمیشہ کے لیے خاموش کرسکتے ہیں۔

    اس پیغام سے اُن پر واضح ہوجانا چاہیے کہ اُن کی دھمکیوں اور اِیذارسانیوں کے اقدامات کا میری طرف سے جواب وہی ہے جو مَیں نے 1933ء میں اُن کی ایسی ہی دھمکیوں اور اِقدامات کے جواب میں دیا تھا، جب مَیں نے ملّت کے سامنے پاکستان کا تصور رکھا تھا اور پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ قائم کی تھی‘‘۔ چودھری رحمت علی نے یہ بیان 28جنوری 1950ء کو ’’تصورِپاکستان‘‘ کی سترہویں سال گرہ کے موقع پر اپنی قیام گاہ واقع 16۔مانٹیگو روڈ ، کیمبرج (برطانیہ ) سے جاری کیا تھا۔

    چودھری رحمت علی نے اپنے ’’تصور ِپاکستان‘‘ کی سترہویں سال گرہ ہی کو پاکستان کی سترہویں سال گرہ قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ’’دشمن کی طرف سے ہمارے ورثے کی موجودہ ،آہستہ آہستہ لیکن مستقل بے حُرمتی اور تباہی وبربادی اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اِس ’پاستان‘ کو ’پاکستان‘ (مکمل پاکستان) میں تبدیل نہیں کرتے‘‘ (اسم پاکستان کے مجوَزکے نزدیک، بغیر کشمیر کے پاکستان، پاستان ہی حاصل ہوا) انھوں نے ملت سے تقاضا کیا کہ ’’جاگو! اُٹھ کر کھڑے ہوجاؤ ۔یا۔پھر ہمیشہ کے لیے تباہ وبرباد ہونے کے لیے تیار ہوجاؤ!‘‘۔آج جب ہم اپنے سامنے کشمیرکا سودا ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں اور زبانی جمع خرچ ، نعروں ، نغموں ،ترانوں اور ڈراموں کے سِوا کوئی جواب دشمن کو نہیں دیاجارہا تو ایسے میںیہ احساس شدت سے ذہن میں جاگزیں ہوتا ہے کہ چودھری رحمت علی واقعی اسم بامسمیٰ تھے ،وہ ’’ علی‘‘ یعنی خدائے بزرگ وبرترکی رحمت تھے جو ہم سے چھین لی گئی۔

    آج کل کے انتہائی نازک عالمی سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی باشعور شخص اُس بطلِ جلیل، دُور بین ودُوراَندیش مفکر کی سیاسی بصیرت کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا، جس نے اپنے عہد میں اپنے ہی زعما کے منہ سے یہ سنا کہ ’’رحمت علی کی باتیں کسی پاگل، مجنون کی جیسی، بچکانہ اور ناقابلِ عمل ہیں‘‘ اور پھر بھی وہ یکہ وتنہا، ’’  لشکرِیک فرد‘‘ یا One-man Army بن کے ڈٹا رہا اور اَپنے تصورات، نظریات اور عقائد کے بے باکانہ پرچار سے پیچھے نہیں ہٹا۔اللہ کی شان ہے کہ اس فردِ فریدکے متعلق ایسی باتیں کرنے والوں نے بعداَزآں، حالات کا تقاضا دیکھ کر، اسی کے تصورات میں شامل،ایک ملک پاکستان کی شکل میں مانگا اور جیسا تیسا پاکستان مل جانے کے بعد مطمئن ہوگئے۔

    چودھری رحمت علی کی اپنے وقت کے بڑے قائدین سے اختلافِ رائے کے بعد ناراضی اور شدید برہمی کی وجہ یہ تھی کہ بقول اُن کے مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر کے کے عزیز’’ اُن کا اعتراض یہ تھا کہ ایک چھوٹا سا پاکستان قبول کرلیا گیا، جبکہ مسلمان اس سے زیادہ کے حق دار تھے۔ رحمت علی نے یہ دلائل خلوصِ نیت سے دیے تھے ، دشمنی میں نہیں‘‘۔ (سوانح حیات چودھری رحمت علی ص 513: اصل کتاب Rahmat Ali-A Biography،مترجمہ بیرسٹر اقبال الدین احمد و پروفیسر زید بن عمر)۔

    بلاتحقیق ہرمسئلے میں کوئی حکم صادر کرنے والے یا فتویٰ جاری کرنے والے بہت سے لوگوں کو یہ باتیں آج بھی جذباتی لگتی ہوں گی، آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ چودھری رحمت علی نے غیردانش مندانہ اور غیر حقیقی تصورات پیش کیے تھے ،وہ عملیت پسند [Pragmatist] نہیں تھے۔

    حقیقت یہ ہے کہ اُن کی کہی ہوئی ایک ایک بات اور ایک ایک تصور یا خاکہ موجودہ سیاسی تناظرمیں حرف بہ حرف درست اور مبنی برصداقت ثابت ہوا ہے۔ اگر انھوں نے ایک سے زیادہ ریاستوں، خصوصاً اسلامی ریاستوں کی تشکیل اور ایک الگ اسلامی برِ اعظم ’دِینیا‘ کی تشکیل کا نظریہ پیش کیا تو وہ اس لحاظ سے بھی حقیقی اور عملیت پسندی کا عکاس تھا کہ ہمارے یہاں گزشتہ کئی سو سال سے ایسی کوئی قیادت نہیں اُبھری جو پوری اُمت کو متفق ومتحد کرسکے اور کسی بھی صورت اغیار کے کسی پیشگی طے کردہ منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کردے۔

    ہماری وحدت کو پارہ پارہ کرکے، خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنانا فرنگ کا کارنامہ تھا اور ہم اس زبوں حالی سے نکلنے کے لیے کبھی متفق بھی نہیں ہوئے۔ اس سارے پس منظر وپیش منظر کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ چودھری رحمت علی نے کوئی خلافِ حقیقت یا خلافِ عقل بات کی تھی یا اُن کے پیش کردہ تصورات یا منصوبے محض کاغذہی پر اَچھے لگتے ہیں۔

    چودھری رحمت علی کی کتب، مراسلے، مجلے، مکاتیب اور بیاض سبھی اس حقیقت کابہ بانگ ِدُہل اعلان کرتے دکھائے دیتے ہیں کہ یہ راہ نما اپنے وقت سے بہت آگے دیکھنے اور اس کی بابت تصورات پیش کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا، یعنی حقیقی معاملہ فہم تھا۔ بات کی بات ہے کہ علامہ اقبال نے23 جنوری 1935ء کو اپنے اسی جونئیر کے نام ایک خط میں اُسے’’برادرِ گرامی قدر حضرت چودھری رحمت علی صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور یہ شعر لکھے تھے:

    نشانِ راہ دِکھاتے تھے جو سِتاروں کو

    ترس گئے ہیں کسی مردِ راہداں کے لیے

    نگاہ  بلند، سخنِ دل نواز،  جاں  پُرسوز

    یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

    چودھری رحمت علی نے اپنی بیاض میں لکھا کہ ’’یہ قسمت کا افسوس ناک چکر ہوگا کہ مسلمان، ہندوستان پر اپنے ہزار سالہ اقتدار کے بعد، اپنا وطن ہندوؤں کے حوالے کر دیں… ہمارا سِتارہ جُزوی طور پر گہنا گیا ہے، اللہ کی مدد سے یہ ایک دن اپنی چمک دمک دوبارہ حاصل کرلے گا۔‘‘ قارئین کرام! کیا آپ نے تحریک ِپاکستان کے محدودعرصے میں کسی اور رہنما کو یہ بات کہتے ہوئے دیکھا سنا؟ یہ وہ حقیقت تھی جس کا اِدراک نہ کرنے کے سبب ہی ہمارا اقتدار کمزور سے کمزور ہوتا چلاگیا‘‘۔

    یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خطہ ہند کی تقسیم اور دو الگ ریاستوں کے قیام کے بنیادی تصور میں مسلمانانِ برّعظیم کی اپنی رخشندہ روایت بھی پامال ہوئی کہ ہم کبھی غالب تھے اور پھر مغلوب ہوئے توایسے کہ جو کہا گیا ، جیسا کہا گیا، مانتے چلے گئے۔

    فرنگی نے اقتدار ہم سے چھینا تھا، اس کا کام یہی ہونا چاہیے تھا کہ ہمیں واپس کرتا اور چلا جاتا نہ کہ تقسیم کرکے ایک دشمن قوت کو ہمارے مقابل کھڑا کرنے کی سازش منظم طریقے سے کرکے ہمارے لیے مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ جاتا۔ چودھری رحمت علی نے برملا کہا تھا کہ ’’ایک اقلّیتی حکومت جو قانون سازی بھی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتی، و ہ اپنی بے بسی کا سایہ ہی برقرار رکھ سکتی ہے… بالڈوِن حکومت کی طرح، لیبر حکومت بھی ان غیر معمولی حقائق کو ایسے ہی دیکھ رہی ہے جیسے ایک گائے کسی گزرتی ہوئی ریل گاڑی کو دیکھتی ہے۔ مَیں اقلّیت میں رہنے کو تیار نہیں… دنیا کے کسی بھی دوسرے حصے کی نسبت، ہندوستان میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ ساز قیادت کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘

    یہاں اس تاریخی انکشاف کا اعادہ ضروری ہے کہ اس عظیم راہ نما نے یکایک 1933ء میں کسی آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ یونہی نہیں کر دیا تھا، بلکہ اُن کی تحریک ِ پاکستان 1915ء میں اُس وقت شروع ہوئی، جب وہ انٹر میڈیئٹ کے طالب علم تھے اور اِس خطے میں کسی مرکزی قائد نے ایسا کوئی تصور پیش کیا، نہ اس بابت سوچا تھا۔ انھوں نے  1915ء میں، اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ (لاہور) میں بزمِ شبلی کے تاسیسی اجلاس سے بحیثیت بانی وصدر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انڈیا کا شمالی علاقہ مُسلم ہے اورہم اسے مسلم ہی رکھیں گے۔ صرف یہی نہیں، ہم اسے ایک مسلم مملکت بنائیں گے، لیکن ہم ایسا اسی صورت میں کر سکتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارا شمالی علاقہ اِنڈین نہ رہے، کیوں کہ یہ اس کے لیے پہلی شرط ہے۔

    اس لیے جتنی جلدی ہم ’انڈین ازم‘ (ہندوستانیت) سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ یہی ہم سب کے لیے اور اِسلام کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ یادرکھیں کہ اس ’دھماکا خیز‘ تصور ِ پاکستان والی تقریر کے اگلے ہی برس یعنی 1916ء میں مشہور ِ زمانہ ’میثاقِ لکھنؤ‘ کے ذریعے نام نہاد ’ہندو۔مسلم‘ اتحاد کی کاوش منظرِ عام پرآئی تھی اور ایسے میں اس نوجوان نے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں ہی میں اپنے بظاہر اِنقلابی قسم کے دانش ور نُما دوستوں سے ترکِ تعلق کرنا پڑا تھا، کیوں کہ وہ اس سوچ کے خلاف تھے۔

    انھوں نے عَلانیہ اپنے سیاسی مسلک کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ’’دوستو! اگر میرے خیالات آپ کے لیے قابل ِ قبول نہیں تو بہتر ہے کہ ہم علاحدہ ہو جائیں۔ آئیے ایسا کرتے ہوئے ہم اپنے اپنے عہد پر قائم رہ کر، اپنے اپنے نظریے کے مطابق آزادی کے حصول کے لیے کوشش کریں۔

    آپ اپنے راستے پر چلیں اور میں اپنے راستے پر چلوں گا۔‘‘ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے منفرد قائد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے انڈین انقلاب کے لیے کام کریں، جب کہ میں اپنے اسلامی انقلاب کے لیے کام کروں گا۔ آخرِش ہم دیکھیں گے کہ کون انڈیا میں سب سے زیادہ متحرک اور اِختراعی انقلاب برپا کرتا ہے۔‘‘

    چودھری رحمت علی کو رَبِ کریم نے توفیق بخشی کہ وہ اپنی نوجوانی ہی میں واضح سیاسی تصور کے ساتھ یہ کہہ اُٹھے : ’’یہ علیٰحدگی میرے لیے اللہ کی ایک رحمت تھی، کیوں کہ اس نے میرے نظریات کو خالصاً اسلامی سمت دے دی (لفظ ’خالصتاً‘ غلط ہے)، ایسی سمت جس نے آخر کار’ پاک  پلان‘ کی طرف میری راہ نمائی کی۔ پاکستان اُسی پلان کا پہلا مرحلہ ہے۔‘‘ ہماری پوری تحریک ِ آزادی بشمول تحریک ِپاکستان میں سوائے چودھری رحمت علی کے کوئی ایسا راہ نما نظرنہیں آتا، جس نے روزِ اوّل ہی سے اپنا قبلہ صرف اور صرف ایک الگ آزاد وخودمختار مسلم ملک کے حصول کی جدوجہد کو قرار دیا ہو، البتہ ہمارے یہاں ماقبل حسرت موہانی اور کسی حدتک محمد علی جوہر ؔ ایسے قائدین ضرور تھے، جنھوں نے کامل آزادی کا نعرہ لگایا ، دوقومی نظریہ بھی ان حضرات سے قبل اور کہیں واضح ، اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی اور اُن کے مرید خاص علامہ مفتی حکیم سید نعیم الدین مرادآبادی نیز تلمیذِ علامہ نعیم ، مفتی محمد عمر نعیمی (رحمہم اللہ) اپنے علمی ،سیاسی وادبی جریدے ’السّوادِ اعظم‘ کے ذریعے پیش کر چکے تھے۔ اس بابت ماقبل بھی ایک سے زائد بار یہ خاکسار بالتحقیق واضح طور پر اس مفروضے کی تردید کر چکا ہے کہ سیاسی میدان میں دوقومی نظریہ ، سرسید احمدخاں کی دین تھا۔

    سردارگُل محمد خان کی رپورٹ مطبوعہ 1923میں شمال مغربی سرحدی صوبے کی انکوائری کمیٹی کے روبرو اس علاقے کی علیٰحدگی کا مطالبہ کیا گیا تو چودھری رحمت علی نے اس موقع پر اپنی خوشی کا اظہار یوں کیا :’’سردارصاحب نے  علیٰحدگی کا مطالبہ کرکے اُن تمام مسلم سیاست دانوں اور تنظیموں کو رَد کر دیا جو مسلمانوں اور ہندوؤں کی ایک مشترکہ قومیت کے لیے کام کررہی تھیں۔

    انھوں نے ہماری علیٰحدہ قومیت کادعویٰ کیا اور اِنڈیا کی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین واضح تقسیم کا مطالبہ کیا تھا‘‘۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی ،بلکہ انھوں نے اس باب میں آل انڈیا مسلم لیگ پر تنقید بھی کی تھی ،نیز اِس تأسف کا اظہار کیا تھا کہ اُس دور کے کسی مسلم مصنف نے اس مطالبے کا حوالہ تک نہیں دیا۔اگلے سال یعنی 1924میں حسرت موہانی نے ہندوستان میں صوبے نُما ریاستوں پر مبنی انڈین فیڈریشن کے قیام کی تجویز پیش کی جسے چودھری صاحب نے اختلاف کے باوجود یہ کہہ کر قبول کیا کہ ’’ایسی فیڈریشن کا قیام، (گویا) اسلام کو بیڑیاں پہنانا ہوگا‘‘، کیوں کہ چودھری رحمت علی کے خیال میں ایسا کرنے سے ’’ہماری بنیادی یعنی اقلّیتی حیثیت میں کوئی فرق نہ پڑتا، چھے مسلم اور سولہ ہندو ریاستوں پر مشتمل فیڈریشن کے قیام سے ہماری غلامی کو دَوام مل جاتا، یہ تسلیم بھی نہیں کیا گیا کہ ہندوستانی مسلمان الگ قوم ہیں یعنی ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ ہندوقومیت ہی کا حصہ رہتے اور ہندوؤں کی اکثریت کے باعث ، سپریم نیشنل گورنمنٹ میں بھی بہت بڑی اکثریت انہی کی ہوتی۔‘‘

    چودھری رحمت علی کی اسکیم میں بِہار اور اُڑیسہ کی مسلم اقلّیت کے لیے ’فاروقستان‘ ، آگرہ اور اَوَدھ کے متحدہ صوبوں کی مسلم اقلّیت کے لیے ’حیدرستان‘، جنوبی ہند (مالابار ومتصل علاقہ جات) کے مسلمانوں کے لیے ’ماپلستان‘ ،بندھیل کھنڈ اور مالوَہ (وسطی ہندوستان) کے مسلمانوں کے لیے ’صدیقستان‘، مغربی سری لنکا کے مسلمانوں کے لیے ’صافستان‘ اور مشرقی سری لنکا کے مسلمانوں کے لیے ’نصارستان‘ نامی ریاستوں کی تاسیس کا خاکہ پیش کیا تھا۔

    جنوبی ایشیا کو ’پاکیشیا‘ بنانے کا منصوبہ اُن کی تحریک کا دوسرا پڑاؤ تھا۔پاکستان کی غیر مسلم اقلّیتوں کے لیے الگ علاقوں کے قیام کی تجویز بھی انھوں نے پیش کی تھی۔ انھوں نے انڈیا میں رہ جانے والے مظلوم مسلمانوں کی حفاظت کے لیے 15اگست 1948ء کو سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے نام خط لکھتے ہوئے ایک انکوائری کمیشن وہاں بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    اسی دورمیں حکومت ِ پاکستان نے ہندوؤں کے ہاتھوں مظالم سہنے والے مسلمانوں کا معاملہ، ہندوستان کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر اُن کی کوئی مدد نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ اکتوبر 1948ء  میں ملک وملت کے اس عظیم محسن کوایک خفیہ سرکاری ادارے نے مذموم ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا، انھیں پاکستانی پاسپورٹ سے محرو م کیاگیا ، ایک دعوت میں انھیں زہر دینے کی کوشش کی گئی اور آخرِ کار ملک چھوڑنے یا بصورتِ دیگر گرفتارہونے کے لیے پیش ہونے کا حکم جاری کیا گیا۔ 3 فروری 1951ء کو عالم اسلام کا یہ بے لوث سپاہی ابدی نیند سوگیا۔

    مندرجہ بالا تکلیف دہ حقائق کے ساتھ ساتھ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قائداعظم نے متعدد مواقع پر ،چودھری رحمت علی کے تصورات کی تائید کی، اُن کے الفاظ دُہرائے، قراردادِ لاہور کی تقریر اور برما کی بطور ملک علیٰحدہ حیثیت کے تصور کی تائید کی۔ علامہ اقبال نے انھیں خط لکھ کر پاکستان نیشنل موومنٹ میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی اور اسی سلسلے میں 1937ء میں قائداعظم کو تحریک کے لیے آمادہ کیا۔

    چودھری رحمت علی کی حیات وخدمات اُجاگر کرنے کے لیے کے کے عزیز مرحوم، بیرسٹر اقبال الدین احمد (لندن) اور پروفیسر زید بن عمر (لاہور) کی مساعی ہرلحاظ سے لائق تحسین وتقلید ہیں۔ اللہ کرے کہ اس قوم کو اپنے محسنین کی قدر کا شعور عطا ہو اور ہم اُن کے بے مثل کردار کی پیروی کریں۔آمین