بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں مذہبی قانون کی جگہ متنازع بل منظور

    اتراکھنڈ میں متنازع قانون مودی کی جماعت کا انتخابات سے قبل حامیوں کے لیے حربہ قرار دیا جا رہا ہے—فائل/فوٹو:واشنگٹن پوسٹ

    اتراکھنڈ میں متنازع قانون مودی کی جماعت کا انتخابات سے قبل حامیوں کے لیے حربہ قرار دیا جا رہا ہے—فائل/فوٹو:واشنگٹن پوسٹ

    اتراکھنڈ: بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں مذہبی قانون کی جگہ متنازع بل کامن سول کوڈ منظور کرلیا گیا، جس پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہندو قوم پرست حکمران جماعت اپنا تسلط بڑھا رہی ہے جبکہ مسلمان رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہمالیائی ریاست اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) قانون کی منظوری کے ساتھ ہی متنازع بحث کا آغاز ہوگیا ہے جہاں قومی انتخابات چند ہفتوں بعد شروع ہونے والے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قانون کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ اس سے مسلم خواتین کو بھی دوسروں کی طرح یکسان حقوق حاصل ہوں گے اور بیٹے اور بیٹی کو وراثت میں برابر حصہ اور طلاق کے لیے سول عدالت سے رجوع کرنا ضروری ہوگا۔

    قانون کے تحت شادی کے لیے لڑکی کی عمر کم ازکم 18 سال اور لڑکے کی عمر کم از کم 21 سال مقرر اور مخالف جنس کے ساتھ تعلقات رجسٹر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے ورنہ تین ماہ کی جیل یا جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

    اتھراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکار سنگھ دھامی نے بل کی منظوری سے قبل کہا تھا کہ اس قانون سے غلط رواج کا خاتمہ ہوگا اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔

    خیال رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سول قوانین میں تبدیلی کے لیے طویل عرصے سے چلا رہی تھی لیکن اس سے معاشرے میں کشیدگی اور خاص طور پر مسلمانوں کی جانب سے غصے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

    اتراکھنڈ میں مذہی قانون میں تبدیلی ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب چند ہفتوں قبل ہی نریندرا مودی نے ایودھیہ میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے شہید کی گئی بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والے مندر کا افتتاح کیا تھا اور ناقدین اس اقدام کو اپریل میں ہونے والے انتخابات کے لیے بی جے پی کا حربہ قرار دے رہے ہیں۔

    ناقدین کا خیال ہے کہ بی جے پی کا یہ اقدام اپنے حامیوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ اپریل میں انتخابات میں کامیابی کے بعد مذکورہ قانون ملک بھر میں نافذ کردیا جائے گا۔

    دوسری جانب مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں منظور ہونے والا قانون طلاق، شادی اور وراثت کے حوالے سے اسلامی قوانین کے برعکس ہے۔

    جمعیت علمائے ہند کے رہنما ارشد مدنی کا کہنا تھا کہ ہم شریعت کے خلاف کسی بھی قانون کو تسلیم نہیں کرسکتے ہیں، اسی طرح آل انڈیا مسلم ویمن ایسوسی ایشن کی سربراہ عاصمہ زہرا کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ہماری شادی کا نظام قرآن کے مطابق ہونا چاہئیں۔

    انہوں نے کہا کہ چائلڈ میرج کا معاملہ سماجی اصلاحات سے حل کیا جاسکتا ہے اور ہم سے مشاورت کیے بغیر ایسے قوانین مسلط نہیں کیے جاسکتے ہیں۔