رضی الدین خان، سائنسی صحافت کا روشن ستارہ

    رضی الدین خان وطنِ عزیز میں سائنسی صحافت کے بانیان میں شامل تھے۔ (فوٹو: فائل)

    رضی الدین خان وطنِ عزیز میں سائنسی صحافت کے بانیان میں شامل تھے۔ (فوٹو: فائل)

    پاکستان ایک عظیم سائنسی صحافی، نفیس انسان، اور حق نویس قلمکار سے محروم ہوگیا۔ میرے استاد اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیرِ اعلیٰ جناب رضی الدین خان 17 فروری 2024 کو راہِ آخرت پر روانہ ہوئے۔

    رضی الدین خان وطنِ عزیز میں سائنسی صحافت کے بانیان میں شامل تھے۔ فروری 1980 میں انہوں نے اپنا شاندار جریدہ سائنس ڈائجسٹ جاری کیا جو اَن گنت مسائل کے باوجود مسلسل 21 برس تک شائع ہوتا رہا۔ تاہم اس سے قبل وہ میر شکیل الرحمان کے کہنے پر روزنامہ جنگ میں ’’سائنس کی دنیا‘‘ نامی صفحے کے مدیر مقرر ہوئے اور چند ہفتوں میں ہی یہ صفحہ ملک بھر میں مقبول ہوا اور شوق سےپڑھا جانے لگا۔ یہ صفحہ جمعے کے روز شائع ہوتا تھا اور لوگ اس کے منتظر رہتے تھے۔

    اخبار کا سائنسی صفحہ ہو یا سائنس ڈائجسٹ، اس کی پشت پر رضی الدین خاں صاحب کی وہ حکمتِ عملی تھی کہ سائنس، جسے خشک مضمون تصور کیا جاتا ہے، اسے ہر ممکن حد تک دلچسپ بلکہ چٹ پٹا بناکر پیش کیا جائے۔ مثلاً مکھی پر ایک مضمون موصول ہوا تو اس کا عنوان یہ کردیا کہ ’مکھی کی دونوں آنکھوں میں 8 ہزار لینس ہوتے ہیں‘، اور مکھی کی الیکٹرون مائیکراسکوپ سے لی گئی رنگین تصویر بھی لگادی۔ اسی طرح ایک مضمون پتھروں کو گرم کرکے چونا سازی کے متعلق تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ پتھر گرم ہوکر کس طرح پھول کی طرح کھل کر چونے میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس کی مطابقت میں ایک تصویر لگا کر ’پتھروں کے پھول‘ نامی سرخی لگائی گئی اور اس جیسے دیگر مضامین کو آخر تک عام فہم، دلچسپ اور سادہ بنایا جاتا تھا۔ پھر سماجی لحاظ سے اس میں چٹکلے، اشعار اور معاون تصاویر شامل کیں، جو اس زمانے میں بہت نایاب تھیں۔ تاہم اب ایک کلک پر سائنس کی شاندار تصاویر ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔

    راقم بھی کئی ماہ سائنس ڈائجسٹ کا نائب مدیر رہا اور اس دوران دلچسپ سرخی اخذ کرنے، بہترین تصاویر اور اس سے وابستہ کیپشن پر بھی زور دیا جاتا تھا۔ آخر میں ٹائٹل ڈیزائننگ ایک علیحدہ ذہنی مشق ہوا کرتی تھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر رضی الدین خان کے دھیمے مزاج، عمدہ اور معیاری اردو، حوصلہ افزائی اور ملازمین کا خیال رکھنے جیسی خوبیوں کا معترف رہا۔

    سائنس ڈائجسٹ نے ایسے مضامین شائع کیے جو اپنے وقت سے آگے تھے۔ ان میں کوانٹم کمپیوٹنگ، عسکری ٹیکنالوجی، روبوٹکس، خلائی سائنس، جینیات، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، سائنس فکشن مضامین، پاکستانی سائنسی منظرنامے اور دیگر اَن گنت موضوعات شامل ہیں۔ پھر سائنسی نظمیں اور غزلیں کے عنوان سے ادب و سائنس کی مشترکہ راہیں بھی دکھائی گئیں اور ممتاز شعرا کا کلام قرطاس پر نمودار ہوا۔ اس کے علاوہ سائنسی لطائف اور کارٹون بطور فلرز لیے جاتے تھے اور ان کے انتخاب میں بھی حد درجہ معیار کا خیال رکھا جاتا تھا۔

    اس سے بڑھ کر پاکستان کی ممتاز سائنسی شخصیات کے طویل دستاویزی انٹرویو اس رسالے کی جان تھے۔ ان مشاہیر میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، میجر آفتاب حسن، ڈاکٹر عطاالرحمان، ڈاکٹر سلیم محمود، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی، مسلم دنیا کے پہلے خلانورد سلطان بن سلمان اور دیگر مشاہیر شامل ہیں۔

    سائنس ڈائجسٹ کی مبقولیت سے سائنسی قلمکاروں کی ایک فوج تیار ہوئی جن میں ناصر معین، عبدالمتین خان، انورظہیر رہبر، علیم احمد، آصف امین خان، تفسیر احمد، ڈاکٹر پروفیسر سید صلاح الدین قادری، فرحات خان، مقبول ایچ خان، محبوب احمد، ندیم احمد، سلیمان عبداللہ، عبدالجبار سلیمان اور دیگر افراد کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں سے بعض باقاعدہ سائنس کے طالبعلم بھی نہیں لیکن سائنس ڈائجسٹ اور اس کے مدیر نے انہیں بھی تراش کر ہیرا بنادیا۔

    پاکستان کا المیہ کہ یہاں سائنس و ٹیکنالوجی پر مناسب توجہ نہیں دی گئی اور اس سے بھی بدتر حال سائنسی جرائد کا رہا۔ ایک جانب سرکاری سرپرستی غائب تو دوسری جانب اشتہاری کمپنیاں ایسے جرائد کی اہمیت کو نہیں جانتیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ انہیں اگلے پرچے کی اشاعت کےلیے فکر مند دیکھا۔ کبھی وہ گھنٹوں فون کرکے مشتہرین سے اشتہار کی درخواست کرتے تو کبھی قرض لے کر اخراجات پورے کرتے اور اس کوشش میں اپنے گھریلو اخراجات کم کیے بلکہ ایسی قربانیاں دیں جو آج کا نظریاتی صحافی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

    سائنس ڈائجسٹ کا دفتر صدر تبت سینٹر سے آگے النور چیمبرز کی دوسری منزل پر واقع تھا۔ یہ بھول بھلیوں والی روایتی پرانی عمارت ہے جس میں دن میں بھی خاص روشنی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ ان سے گفتگو کرتے ہوئے شام ہوگئی تو واپسی پر گھپ اندھیرے میں انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گراؤنڈ فلور تک اترنے میں مدد کی۔ اس دوران انہوں نے مذاقاً کہا کہ ’النور چیمبر نام کا النور ہے کیونکہ یہ بہت تاریک رہتا ہے‘۔ لیکن میرے نزدیک اسی النور چیمبرز کا دفتر نمبر 207 علم وحکمت کا ایک روشن چراغ تھا، جس کے روح رواں رضی الدین خان تھے۔

    نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

    اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔