رمضان کے ثمرات اور صحت پر مثبت اثرات

    عبادت کے لیے صحت کا ہونا ضروری ہے، اگر بدن صحت مند اور توانا نہیں ہو گا تو عبادت کرنا بھی مشکل ہوگا۔ اسلام کی دستوری کتاب قرآن مجید میں کھانے پینے کے آداب بتائے گئے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرتا ہے۔

    ارکانِ اسلام کی ادائیگی جہاں ہمیں روحانی طور پر راحت و سرور پہنچاتی ہے وہیں جسمانی لحاظ سے بھی صحت و تندرستی کا ذریعہ بنتی ہے۔ پنجگانہ نماز ہو یا ماہِ رمضان کے روزے، یہ ہمارے لیے روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی آسودگی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی نہ صرف برائیوں سے روکتی ہے بلکہ جسمانی ورزش کے بہترین مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ خاص کر موجودہ مصروف دور میں مصروف زندگی گزارنے والوں کے لیے تو جسمانی فٹنس کے حوالے سے نعمتِ بے بہا ہے۔

    اسی طرح روزہ بھی اپنے اندر صبر واستقامت، تزکیہ نفس اور ایثار و ہمدردی کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ بدنِ انسانی سے ان گنت بیماریوں کو دور کرنے کا قدرتی ذریعہ ہے۔ انسانی جسم کو کئی ایک آلائشوں سے پاک کرنے کا بہترین سبب اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا باعث بھی ہے۔ روزے کے بدنی فوائد کو اب غیر مسلم مغربی محقق بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امریکی یونیورسٹی جانز ہوپکنز کے ماہرین نے عالمی شہرت یافتہ پروفیسر مارک میٹسن کی قیادت میں تحقیق کی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کھانے کی عادت براہ راست انسان کے دماغ پر اثرانداز ہوتی ہے اور ہر وقت بھرے پیٹ کے ساتھ رہنا دماغ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے جس سے انسان فالج، رعشہ اور الزایمر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے میں دو دن فاقہ کرنے سے ان بیماریوں سے باآسانی بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ روزے سے بچوں کو مرگی کے مرض سے بھی نجات پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں نے دن میں تین وقت کھانا معمول بنا لیا ہے اور اسے عین فطرت سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی خوراک کی عادات کو تبدیل کرتے رہنا چاہتا ہے۔ کچھ غیرمعینہ وقفوں کے بعد ہمیں فاقے کرتے رہنا چاہیے کیونکہ جب ہم اپنے حرارے کم کرتے ہیں تو اس سے ہماری عمر میں اضافہ ہوتا اور بڑھتی عمر سے منسلک بیماریاں بھی انسان کو جلد لاحق نہیں ہوتیں۔ اسلامی تعلیمات میں روزہ رکھنے کی بدنی و روحانی اہمیت مسلم ہے۔ 14 سو برس قبل حضور اکرم ﷺ نے ہفتے میں دو دن روزہ رکھنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عمل بدنی تندرستی کا محافظ ہے۔

    اللہ کے فضل و کرم سے ہماری زندگی میں ایک بار پھر ماہِ رمضان کی برکتوں اور رحمتوں کی برسات کی آمد ہوئی ہے۔ یہ ماہِ مقدس اللہ کی خوشنودی و رضا اور مغفرتِ بے بہا کا پیغام بر تو ہے ہی لیکن صحت و تندرستی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ رمضان الکریم میں عام طور پر لوگوں کا عبادات کی طرف رجحان قدرتی طور پر بڑھ جاتا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسانی جسم اور روح دونوں ہی شامل ہو تے ہیں۔ روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ فطرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی عملی مشق ہے۔

    یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی ارتقاء اور اسبابِ دنیوی کی فراوانی سے انسان کے روحانی و جسمانی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل سے اس نے اپنے رہن سہن میں غیر فطری عوامل شامل کرکے اپنی صحت پر سمجھوتہ کیا ہے اور کئی ایک عوارض کو دعوت دے رکھی ہے۔ ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔ روزے کی مدد سے موجودہ دور کے کئی خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً بلڈ پریشر، یورک ایسڈ، کولیسٹرول، موٹاپا، جوڑوں کا درد، بواسیر اور شوگر جیسے موذی اور خطرناک امراض۔

    اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں فرمایا ہے کہ ’’اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف 31) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی بنیاد ہے، اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے۔‘‘ روزہ پرہیز کے حوالے سے ہمیں بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔ سارے دن کی بھوک و پیاس معدے میں جمع ہونے والے فاضل مادوں کو جلا کر جسم کو ان کے نقصانات سے محفوظ کر دیتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان میں ضبطِ نفس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ صبر، استقامت اور حوصلے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ روزے سے نفسانی و شہوانی خواہشات کمزور پڑ جاتی ہیں یوں انسان غلبہ شہوت کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جس طرح مالی زکوٰۃ مال کو آلائشوں سے پاک کرتی ہے بالکل اسی طرح روزہ جسم کو غیر ضروری اور مضر مادوں سے پاک و صاف کرتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر خون کے بڑھے ہوئے دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جب انسانی معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ جسم میں پائی جانے والی اضافی چربیوں کو پگھلا کر مفید بنا دیتا ہے۔ جگر میں جمع شدہ گلائیکوجن جس کی اضافی مقدار ٹرائیگلائسائیڈ کی شکل میں نقصان دہ ثابت ہو تی ہے بحالتِ روزہ توانائی کی شکل میںجسم کو توانائی مہیا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔

    دورانِ ماہِ صیام دھیان رکھیں! غذا کے حوالے سے یہ بات ہرگز اہم نہیں ہوتی کہ ہم کتنا کھا رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ ہمارے بدن کی نشوونما اور طبعی تبدیلیوں کا دار و مدار غذا پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی جسمانی ضروریات، فطری رجحانات اور طبعی میلان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یومیہ غذاؤں کا استعمال کریں تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم 50 فیصد بیماریوں کے خطرات سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اپنے ماحول کو آلودگی اور پراگندگی سے بچا کر مزید 20 فیصد امراض کے حملوںسے بچا جا سکتا ہے۔

    اگر ہم ہر حال میں راضی بہ رضائے خدا رہنا سیکھ لیں یعنی خود ساختہ پریشانیوں سے خود کو بچا لیں تو ہم 90 فیصد مختلف امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بیماریوں کے حملوں اور اثراتِ بد سے بچنے کے لیے فطری غذائیں بہترین ہتھیار ہیں۔ فطری غذاؤں میں ہمارے لیے بیماریوں سے حفاظت اور شفایابی کی مکمل صلاحیت پائی جاتی ہے۔ متوازن اور مناسب غذائیں ہمیں خاطر خواہ حد تک ضدی اور موذی امراض سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ متوازن غذائیں ایسے غذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جو ہمارے بدن کی بنیادی اورلازمی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان بنیادی اور لازمی غذائی اجزاء میں کیلیشیم، پوٹاشیم، فاسفورس، گندھک، جست، فولاد، کیراٹین، آیوڈین، کاربوہائڈریٹس، وٹامنز اور پرو ٹینز وغیرہ شامل ہیں۔ سحر و افطار کے اوقات میں منتخب غذائی اجزا کے استعمال سے ہم روزے کے فلسفے اور روح سے خاطر خواہ روشناس ہو سکتے ہیں۔

    ہمارے یہاںماہِ رمضان میں دن بھر روزہ رکھنے کے بعد خوب تلی غذاؤں کا دستر خوان پہ سجانا فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سموسے، پکوڑے، کچوریاں اور دوسری بھنی ہوئی ڈشیں افطاری میں بڑے شوق سے شامل کی جاتی ہیں۔ لذت، مزے اور چسکے کے چکر میں روزے کی بدنی افادیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور روزے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ روزے کا مقصد تو جسم کو ماضل مادوں اور آلائشوں سے پاک کرنا ہے جبکہ بسیار خوری اور غیر متواز ن خوراک کا بے دریغ استعمال فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اپنے بدن کی غذائی ضرورت سے زیادہ چکنائیاں وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو وہ جسم کے مختلف حصوں میں جمع ہو کر کئی ایک امراض پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔

    ایسے تمام غذائی اجزاء جو جسم کی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں وہ چربیلے ذرات کی شکل میں جوڑوں میں جمع ہو کر جوڑوں کے درد، گنٹھیا، نقرص، موٹاپا اور کمر درد جیسے امراض پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہی چربی خون میں شامل ہو کر خون کو گاڑھا کر کے کو لیسٹرول، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے موذی عوارض کا باعث بنتی ہیں۔ بعد ازاں یہی فاضل مادے گردوں پر اثر انداز ہو کر یوریا اور یورک ایسڈ کی زیادتی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یوں وہ خوراک جسے ہم اپنی صحت اور تندرستی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ کئی ایک موذی امراض کو ہم پر مسلط کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو دنیا بھر میں اتنے لوگ بھوک اور افلاس سے نہیں مر رہے جتنے بسیار خوری سے مر رہے ہیں۔ لہٰذا اب یہ ہماری اپنی انفرادی ذمے داری ہے کہ ہم اپنی خوراک میں توازن پیدا کریں۔ کھانے کے درمیانی وقفے کو مناسب رکھیں اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک خوشگوار، خوشحال اور آسودہ زندگی گزارنے والے بن جائیں۔

    ہر انسان کی جسمانی غذائی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ ایک تندرست انسانی جسم کوعام طور پر یومیہ 2600 کیلوریزدرکار ہوتی ہیں۔ البتہ مختلف عمروں اور مختلف ماحول کے افراد میں اس ضرورت میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً زیادہ تر خواتین اور بوڑھے افراد کو روزانہ 1600 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بچوں اور نو جوان لڑکیوں کی یومیہ جسمانی ضرورت 2200 کیلوریز تک ہوتی ہے۔ ایسے مرد اور نو جوان افراد جو محنت و مشقت کے کام کرتے ہیں انہیں روزانہ 2800 کیلوریز درکار ہوتی ہیں۔ مذکورہ کیلوریز یا غذائی حرارے ہم اپنی روز مرہ خوراک سے حاصل کرتے ہیں۔

    اگر ہم چاہتے ہیں کہ طویل عمر، صحت مند جسم اور آسودہ حال زندگی کے مالک بن جائیں تو روزہ رکھنا لازمی کرلیں کیونکہ سال بھر میں ایک مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی صحت و تندرستی کے حوالے سے اپنی عادات و معمولات پر نظرثانی کریں۔ رواں موسم میں روزہ ہمیں فطری طور پر 13 سے 14گھنٹوں کا وقفہ مہیا کرتا ہے۔ یوں مندرجہ بالا دی گئی کیلوریز اور انسانی جسم کی ضررویات میں توازن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہی بن سکتا ہے۔ سحر و افطار میں ہم اپنی جسمانی ضرورت کے مطابق غذا کا انتخاب کرکے سال بھر کی بے اعتدالیوں کا تدارک کر سکتے ہیں۔ غیر ضروری خور ونوش کی قبیح عادات سے چھٹکارا پانے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔

    اگر ہم روزے کی روح کو سمجھتے ہوئے اور اس کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے روزے رکھیں تو ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ آپ درج ذیل فوائد اور مقاصد کے حصول میں یقینی طور کامیاب ہوں گے۔ آپ کا جسم اضافی چربی اور فاسد مادوں سے پاک ہو گا۔ موٹاپے کا شکار خواتین و حضرات وزن میں خاطر خواہ کمی کر سکتے ہیں۔ بڑھے ہوئے کولیسٹرول اور کولیسٹرول کے نقصانات سے نجات ملے گی۔ خون کا گاڑھا پن ختم ہو کر کئی دیگر امراضِ خون سے جڑے عوارض سے چھٹکارا ملے گا۔ بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل پر قابو پانے کی ہمت اور سبیل پیدا ہو گی۔ ذیابیطس جیسے موذی مرض سے نجات حاصل ہو گی۔ یورک ایسڈ کے عوارض سے جان چھوٹ جائے گی۔

    سگریٹ، چائے اور شراب نوشی کی صحت دشمن عادات سے بہ آسانی پیچھا چھوٹ جائے گا۔ روزہ رکھنے سے جسم کو فرحت و تازگی ملے گی۔ روزے سے ذہنی امراض ڈپریشن، سٹریس اور اینگزائیٹی سے نجات ملتی ہے۔ روزے سے بے خوابی دور ہو کر پر سکون نیند میسر آتی ہے اور خواب آور ادویات سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انتڑیاں اور معدہ فاسد رطوبات سے پاک ہو جاتے ہیں اور یوں ان کی کارکردگی اور افعال میں بہتری پیدا ہو جاتی ہے۔ روزے سے انسانی خدوخال اور ڈیل ڈول میں خوبصورتی اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ چہرے کے کیل، مہاسے اور گرمی دانوں سے نجات ملتی ہے۔ روزہ رکھنے سے اعصابی اور جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔

    یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ 14 گھنٹے تو روزے کا دورانیہ ہے، 6گھنٹے سونے کیلئے درکار ہوتے ہیں۔ باقی بچنے والے 4گھنٹوں میں اپنے نفس اور خواہش پر قابو پانا ہی اصل مجاہدہ ہے۔ ایسے افراد جو سگریٹ نوشی کی علت میں بری طرح گرفتار ہوں اگر تھوڑی سی ہمت کا مظاہرہ کریں تو اس عادت سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح چائے، پان، نسوار اور دیگر نشے والی کسی بھی عادت میں گرفتار ہو نے والے افراد بھی اپنی ان قبیح عادات سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ذرا سی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرکے ان عادات اور ان کے اثراتِ بد سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ سگریٹ نوشی کے عادی افراد روزانہ ایک، ایک سگریٹ کم کرتے جائیں تو مہینے بعد عادت چھوٹ جائے گی۔ عام طور پر 30 سگریٹ روزانہ کم لوگ ہی پیتے ہیں۔

    روزے کے حوالے سے ایک اہم بات یہ کہ روزہ رکھنے کا مقصد سال بھر کے لیے اپنے معمولات متعین کرنا ہو تا ہے۔ جسمانی اور روحانی طور پر پاکیزگی کا حصول ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں روزے کو نام ونمود اور شہرت و ناموری کے لیے استعمال کیے جانے لگا ہے۔ انوا ع واقسام کے کھانوں سے مزین افطار پارٹیاں سجا کر ہم نے روزے کی اصلی روح کو ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ مرغن و متنو ع کھانو ں سے سجی ان افطار پارٹیوں میں شریک افراد جس طرح خور و نوش کا مظاہرہ کرتے ہیں، دکھائی یوں دیتا ہے کہ شاید کھانے پینے کا یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد اس قدر زیادہ کھانا با لکل بھی صحت مندانہ طرزِ عمل کو ظاہر نہیں کرتا۔

    سحر و افطار کے اوقات میں بس اتنا سا فرق ملحوظ رہے کہ آپ کے کھانے پینے کے طرزِ عمل سے’’زندہ رہنے کے لیے کھانا‘‘جھلکے اور نہ کہ ’’کھانے کے لیے زندہ رہنا‘‘ ظاہر ہو۔ پیٹ بھر کے ضرور کھائیں لیکن جی بھر کے کھانے کی کوشش نہ کریں۔ یہی روزے کا مقصد اور تقاضا ہے، اور جب تک ہم روزے کی روح، مقصد اور تقاضے کو پورا نہ کریں گے تو ہمیں ما سوائے بھو کا اور پیاسا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔