شہرِاہل زبان میں اردو سے دوری، جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں داخلوں میں ریکارڈ کمی

    شعبہ اردو میں بی ایس میں 50 اور ماسٹرز کے داخلوں میں 75 فیصد کمی آئی ہے—فائل: فوٹو

    شعبہ اردو میں بی ایس میں 50 اور ماسٹرز کے داخلوں میں 75 فیصد کمی آئی ہے—فائل: فوٹو

    بحیثیت زبان ’اردو’ کی تعلیم میں اہل زبان اور اہل وطن کی بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی اپنے نت نئے ریکارڈ بنا رہی ہے، اردو قومی زبان کے ساتھ ساتھ مادری زبان کا دم بھرنے والے باسیوں کے شہر کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی ‘جامعہ کراچی’ میں شعبہ اردو کے داخلوں میں طلبہ کی تعداد اب ‘دوہرا ہندسہ’ عبور نہیں کرپائی۔

    جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں بی ایس اور ماسٹرز پروگرام میں دیے گئے داخلوں کے اعداد وشمار سے جوصورت حال سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہاں بیچلرز پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں 50 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے، اسی طرح سال سوم (پرانا ماسٹرز پروگرام) میں یہ داخلے گزشتہ برس کے مقابلے میں تقریباً75فیصد تک کم ہوگئے ہیں۔

    واضح رہے کہ مذکورہ صورت حال اس سے قبل لسانیات کے دیگر شعبوں میں سامنے آرہی تھی جبکہ انگریزی اور اردوکے شعبے اس زوال سے قدرے محفوظ تھے لیکن لسانیات کی تعلیم میں زوال کی اس لہر نے اب شعبہ اردو کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تاہم بین الاقوامی زبان ہونے کے سبب شعبہ انگریزی اس لہر سے فی الحال محفوظ ہے۔

    قابل ذکر امر یہ ہے کہ کمرشل ازم کے موجودہ دور میں لسانیات کے دیگر شعبوں میں داخلوں کا تناسب کم ہونا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی تاہم ایک ایسے شہر جہاں کی نصف آبادی کی مادری اور مجموعی آبادی کی قومی زبان اردو ہے، اس شہر کی مادر علمی (جامعہ کراچی) میں اردو کی تعلیم سے طلبہ کی اکتاہٹ نے سوچنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

    معاشرے کے مختلف طبقات میں بولی جانے والی اردو زبان اور تہذیبی اشرافیہ کے مابین فاصلے تو پہلے ہی دونوں طبقات کی بول چال میں واضح فرق کو عیاں کرچکے تھے اب اس فرق نے تعلیمی میدان میں بھی صورت حال سنگین کر دی ہے۔

    ایکسپریس کو اس سلسلے میں موصول ہونے والے آفیشل اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ جامعہ کراچی میں حال ہی میں شروع ہونے والے نئے سیشن 2024 میں شعبہ اردوکے سال سوم (پرانے ماسٹرز پروگرام) میں صرف 7 طلبہ نے داخلہ لیا ہے اور بیچلرز پروگرام میں صرف 45 طلبہ داخل ہوئے ہیں، یہ صورت حال دستیاب تاریخ میں پہلی بار سامنے آئی ہے۔

    جب طلبہ کی اردو میں بیچلرز اور ماسٹرز پروگرام میں عدم دلچسپی مذکورہ نہج پر آگئی ہے اس سے قبل گزشتہ سیشن 2023کے داخلوں میں جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں سال سوم پروگرام میں 25 داخلے ہوئے تھے اور بیچلرز پروگرام میں 109داخلے ہوئے تھے۔

    جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں گزشتہ سے پیوستہ سیشن 2022میں سال سوم کے داخلے 15 اور بیچلرز کے 180 داخلے  تھے، اعداد و شمار کے مطابق نہ صرف سال سوم (پرانا ماسٹرز پروگرام) میں داخلے دوہرے ہندسے سے کم پر آگئے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً75فیصد تک کم ہوئے ہیں بلکہ بیچلرز پروگرام(بی ایس) کے داخلے بھی گزشتہ تین برس میں 75 فیصد تک کم ہوئے ہیں۔

    ایکسپریس نے اس حوالے سے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی سے رابطہ کیا اور اس صورت حال کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ‘اس صورت حال کے پس پردہ ایک نہیں کئی عوامل ہیں، صف اول تو یہ بات ہے کہ طلبہ کا رجحان ہی ان ضابطوں کی جانب ہے جہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ فوری طور پر اپنے روزگارکے لیے کسی ادارے سے منسلک ہوجائیں، جسے ہم ( job oriented)شعبہ جات کہتے ہیں۔

    وائس چانسلر نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک اور اہم وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دانش ور اور طالب علم کے درمیان بھی فاصلہ ہے،  اب ادیب و شاعر طالب علم کو اس جانب لانے کے لیے وہ کردار ادا نہیں کر رہے ہیں جو آج سے چند دہائیوں قبل تھا۔

    انہوں نے کہا کہ جب ادیبوں اور طلبہ کے آپس میں تہذیبی رشتوں اور اکیڈمک روابط تھے تو بڑی بڑی تحریکیں چلتی تھیں اور اس میں اسی اردو زبان کا کردار ہوتا تھا تاہم اب ہمیں اس نہج کے شاعر نہ ہی ادیب نظر آتے ہیں جو نوجوانوں کو زبان و ادب کی جانب بلائیں۔

    جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ سال میں ایک اردو کانفرنس ہوجاتی ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کانفرنس کی سفارشارت اور قراردادیں بھی صرف دستاویز کا حصہ رہتی ہیں جبکہ ایک عام آدمی یاطالب علم اس سے بھی دور ہے۔

    واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں لسانیات کے دیگر شعبوں میں بھی طلبہ کی تعداد میں کمی آ رہی ہے اور مسلمانوں کی شناخت یا قرآن کی زبان ‘عربی’ اور سندھ دھرتی کی زبان ‘سندھی’ میں بھی داخلوں کا گراف گر رہا ہے، شعبہ عربی میں رواں سیشن 2024کے لیے بیچلرز پروگرام میں 9 اور سال سوم میں ایک داخلہ بھی نہیں ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس سیشن 2023 میں شعبہ عربی میں بی ایس میں 14 اور سال سوم میں 3 داخلے ہوئے تھے، شعبہ سندھی میں اس سیشن میں بی ایس میں 5 طلبہ نے داخلہ لیا ہے جبکہ گزشتہ برس 2023 میں یہ تعداد 21 تھی، اس سال شعبہ بنگالی میں بیچلرز پروگرام میں 2 اور سال سوم میں ایک بھی داخلہ نہیں ہے۔

    گزشتہ برس شعبہ بنگالی میں بی ایس اور سال سوم میں 1/1 داخلہ ہوا تھا، شعبہ فارسی میں بی ایس پروگرام میں دو اور سال سوم میں 3 داخلے ہوئے ہیں جبکہ برس شعبہ فارسی کے بی ایس پروگرام میں 4 اور سال سوم میں دو داخلے ہوئے تھے۔

    ‘ایکسپریس’ نے سماجی علوم، لسانیات اور بالخصوص اردو زبان کے اس بظاہر زوال پر معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر ہلال نقوی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘کون نہیں جانتا کہ فلسفہ ہو، لٹریچر یا پھر سماجی علوم یہ سب قوموں کے اذہان کے دریچےکھولتے ہیں لیکن ہمیں ذہن کے دریچے نہیں کھولنا، ہمیں مال و زر چاہیے اور اس کے لیے اردو نہیں پڑھنی بلکہ ملازمت کرنی ہے۔

    ڈاکٹر ہلال نقوی کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، ہمارے انفرادی یا اجتماعی اقتصادیات ہمیں بینکنگ یا فارمیسی کی جانب لے جا رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ شعبے سکڑ کرایک عمارت کے چند کمروں تک آجائیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اب تو طلبہ کیمسٹری اور بائیوکیمسٹری بھی اس انداز یا تعداد میں نہیں پڑھ رہے ہیں تاہم یہ مشکل صرف ہمارے یا ہمارے جیسے ملکوں میں ہی ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ سماجی علوم پر بھی یکساں زور ہے۔

    ایک سوال پر ڈاکٹر نقوی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی والدین اپنے بیٹے کا رشتہ لے کرلڑکی کے گھر جائیں اور بتائیں کہ بیٹے نے اردو میں ایم اے کیا ہے تو لڑکی کے والدین سوچ میں پڑجائیں گے کہ کیا کریں۔

    انہوں نے معروف برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل کا ایک قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ جب درخت کے پتے خراب ہونے لگتے ہیں اور حسن ماند پڑتا ہے تو ہم درخت پر چڑھ کر علاج کی کوشش کرتے ہیں لیکن جڑوں کا علاج نہیں کرتے۔

    ادھر جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی سے حاصل کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ سیشن 2024 میں بی ایس پروگرام میں 81 اور سال سوم میں 23 طلبہ نے داخلہ لیا ہے جبکہ گزشتہ برس 2023 میں بی ایس پروگرام میں 75 اور سال سوم میں 48 داخلے ہوئے تھے۔

    یادرہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان(ایچ ای سی) کی جانب سے ملک بھر کی جامعات میں ماسٹرز پروگرام ختم کیے جانے اور اس کی جگہ سال سوم کو دینے کے سبب جامعات کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں داخلوں کارجحان کم ہوا ہے تاہم لسانیات کے شعبوں میں یہ رجحان انتہائی شدت کے ساتھ آیا ہے اور شعبہ اردو کو بھی اب اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔