صحافی جس نے مغربی استعمار سے ٹکر لی

    حالیہ تیس دسمبر کو ممتاز صحافی، ادیب، دانشور اور دستاویزی فلمیں بنانے والے جان پیلگر (John Richard Pilger)چوراسی سال کی عمر میں چل بسے۔ جان1939ء میں آسٹریلیا میں پیدا ہوئے مگر ان کی بیشتر زندگی برطانیہ اور امریکا میں گذری۔ آپ کی وجہ شہرت امریکی ، برطانوی اور دیگر مغربی حکومتوں کا کڑا مخالف ہونا تھا۔جان سمجھتے تھے کہ یہ حکومتیں استعماری اور نوآبادیاتی ذہنیت کے زیراثر اپنی خارجہ پالیسیاں بناتی اور چھوٹے وغریب ملکوں کو اپنے قبضے میں رکھتی ہیں۔

    جان اسلامی ممالک کے سلسلے میں بنائی جانے والی مغربی حکومتوں کی پالیسیوں کے بھی سخت ناقد تھے۔ ان کا کہنا تھا:’’عالمی دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان بنتے ہیں۔‘‘انھوں نے کئی بار مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں آباد مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی اور غاضب بھارت و اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

    اہل کشمیر کے ساتھی

    جان پیلگر نے مسئلہ کشمیر کو نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ پوری دنیا کا سب سے نازک تنازع قرار دیا ۔ ان کی رائے میں عالمی فورم… اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں تقریباً سات دہائیوں سے اسے حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ 2011 ء میں انھوں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا :

    ’’مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ فوجی عوام کے سروں پہ مامور ہیں۔ بھارت اس خطے کا تذکرہ عالمی میڈیا میں نہیں ہونے دیتا۔ اس کے باوجود وہاں تحریر اسکوائر کے مانند ایک پُرامن تحریک جنم لے رہی ہے۔یہ کشمیری (بھارتی)حکمران طبقے کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ ہزارہا کشمیری ’غائب‘ہو چکے اور ان پہ تشدد ہونا کوئی نئی بات نہیں رہی۔‘‘

    بے کس فلسطینی مسلمان

    کمزوروں کے لیے آواز بلند کرنے والے یہ دلیر صحافی اہل فلسطین کی حمایت میں بھی لکھتے اور بولتے تھے۔ 15 نومبر کو غزہ پہ حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد انھوں نے ایک مضمون ’’ہم سپارٹیکس ہیں‘‘(We Are Spartacus”: Resistance and the unmoving shadow of war)قلمبند کیا ۔جان لکھتے ہیں :

    ’’فلسطینی سپارٹیکس ہیں۔ وہ لوگ جو سڑکوں کو جھنڈوں اور اصول اور یکجہتی سے بھر دیتے ہیں، وہ سپارٹاکس ہیں۔ اگر ہم بننا چاہتے ہیں تو ہم سب بھی سپارٹیکس ہیں۔‘‘

    یاد رہے، سپارٹیکس رومی سلطنت میں ایک غلام تھا۔ اس نے ظالم رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔اس بغاوت میں دیگر غلام بھی اس کے مددگار بن گئے۔اس کی حریت پسندی پہ بالی وڈ میں کئی فلمیں بن چکیں جن میں سب سے مشہور وہ فلم ہے جس میں کرک ڈگلس نے یہ کردار ادا کیا تھا۔

    جان پیلگر نے اہل فلسطین کی حالت ِ زار عیاں کرنے کے لیے دو دستاویزی فلمیں بھی بنائیں۔ 1974 ء کی فلم میں تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کی پرواز اور بے دخلی کو بیان کیا گیا، جو 1948 ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے وقت اپنی ہی سرزمین پر پناہ گزین بن گئے۔ 2002 ء کی دستاویزی فلم میں انھوں نے بیان کیا:

    ’’’جو بدلا ہے وہ یہ کہ فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بے وطن اور اتنے عرصے سے ذلیل و خوار ہو کر وہ اسرائیل کی بہت طاقتور فوجی حکومت کے خلاف اٹھے ہیں، حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی فوج ہے، نہ ٹینک، نہ امریکی طیارے اور نہ گن شپ اور نہ میزائل… ان کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو پر بے رحم اسرائیل کا کنٹرول رہا ہے، گویا وہ کسی کھلی جیل میں رہتے ہیں۔کرفیو، کنٹرول، روڈ بلاکس اور ان کی زندگیوں پر حکمرانی کرنے والی چوکیوں کا موازنہ جنوبی افریقہ (کی سابقہ نسل پرست حکومت) سے ہوتا ہے۔‘‘

    ایکس (X) پر بھی مرحوم کی آخری چند پوسٹوں میں فلسطین ہی موضوع تھا۔غزہ کی پٹی میں ہونے والے قتل عام میں 7 اکتوبر سے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اب تک تقریباً 22,000 سے زیادہ فلسطینی شہیدہو چکے جن میں بہت سے صحافی بھی شامل ہیں۔غزہ کے متعلق انھوں نے لکھا:

    “جب میں آخری بار غزہ میں تھا، اسرائیلی فضائیہ نے رات کو تیز اور نیچی پروازیں کر کے آبادی کو خوفزدہ کیا۔ ایک ماہر نفسیات نے مجھے بتایا، تمام(فلسطینی) بچوں کے بستر بھیگے ہوئے تھے اور انہیں پرُتشدد ڈراؤنے خواب آتے تھے،اور وہ ہمیشہ کے لیے ذہنی مریض ہو گئے ۔ یہ اسرائیل کی جانب سے اپنے ’دفاع کے حق‘ کا استعمال ہے۔‘‘

    افغانستان میں ظلم وستم

    مضمون ’’ہم سپارٹیکس ہیں‘‘میں جان پیلگر نے افغانستان میں امریکا اور آسٹریلیا کے کردار پہ زبردست تنقید کرتے ہوئے ان مغربی ملکوں کے حکمران طبقے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق نائن الیون کے بعد سے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں امریکا اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں تقریباً ساٹھ لاکھ مرد، خواتین اور بچے مارے جا چکے ۔ اس اجتماعی قتل کے ’جشن‘ میں واشنگٹن میں ایک یادگار تعمیر کی جانی ہے۔ یادگار تعمیر کرنے کی کمیٹی کی سربراہی سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے پاس ہے۔ افغانستان، جہاں سے اس قتل عام کی شروعات ہوئی تھی، آخر کار اس وقت برباد ہو گیا جب صدر بائیڈن نے اپنے قومی بینک کے افغانوں کے ڈالر جاری کرنے سے روک دیا۔

    ’’ماضی میں مغرب بہت سے افغانستان جنم دے چکا۔(امریکی استعمار پسندی کے ناقد صحافی) ولیم بلم (William Henry Blum) نے اپنی پوری زندگی اس تحقیق پر وقف کر دی کہ امریکا کی ریاستی دہشت گردی کو سامنے لایا جائے۔وہ اپنی کتاب(Rogue State: A Guide to the World’s Only Superpower )میں لکھتا ہے:

    ’’میری زندگی میںامریکا نے 50 سے زیادہ حکومتوں، زیادہ تر جمہوریتوں کا تختہ الٹ دیا یا ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے 30 ممالک میں جمہوری انتخابات میں مداخلت کی ۔ اس نے 30 ممالک کے لوگوں پر بم گرائے جن میں سے زیادہ تر غریب اور بے دفاع ہیں۔ اس نے 20 ممالک میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے جدوجہد کی ۔ اس نے لاتعداد لیڈروں کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔‘

    ’’افغانستان وہ ملک ہے جہاں مغرب نے لوگوں کو مارنے اور قتل وغارت گاری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ‘جنگجوؤں’ کی رسم کے ساتھ مسلحجوان بھیجے۔ ہم یہ سچائی (آسٹریلیا کی ایلیٹ فوج)ایس اے ایس( SAS ) کے سوشیوپیتھس کے شواہد سے جانتے ہیں۔ان شواہد میں وہ تصویر بھی شامل ہے جس میں ایس اے ایس کے جوانوں کو ایک افغان مقتول کی کھوپڑی میں شراب پیتے دیکھا جا سکتا ہے۔مگر اس جرم اور دیگر جرائم کے سلسلے میں ایک بھی سوشیوپیتھ پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

    ’’ان جرائم میں یہ شامل ہیں: کسی آدمی کو چٹان پر لات مارنا، بچوں کو گولی مار کر گولی مارنا، گلے کاٹنا۔ اس میں سے کوئی بھی ‘جنگ میں’ نہیں۔ وسل بلور ڈیوڈ میک برائیڈ، ایک سابق آسٹریلوی فوجی وکیل جنہوں نے افغانستان میں دو مرتبہ خدمات انجام دی ، اپنے رازداں نظام میں ایک سچے انسان تھے۔ وہ سچائی اور وفاداری پر مستقل یقین بھی رکھتے ہیں۔ وہ ان کی تعریف کر سکتا ہے جیسا کہ کچھ کر سکتے ہیں۔لیکن 13 نومبر سے وہ ایک مبینہ مجرم کے طور پر کینبرا میں عدالت میں ہے۔آسٹریلیائی ہیومن رائٹس لا سنٹر کے ایک سینئر وکیل کیرن پینڈر کی رپورٹ کے مطابق ’’ایک آسٹریلوی وسل بلور کو خوفناک غلط کاموں پر سیٹی بجانے پر مقدمے کا سامنا ہے۔ یہ انتہائی ناانصافی ہے کہ افغانستان میں انجام پائے جنگی جرائم کے مقدمے میں پہلا شخص وِسل بلور ہے نہ کہ مبینہ جنگی مجرم۔‘‘

    برطانیہ کے نامور سماجی رہنما اور لیبر پارٹی کے سابقہ قائد، جیریمی کوربن نے جان پیلگر کی موت پہ بیان دیا:یہ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔جان نے ظلم وستم کا شکار لوگوں کو آواز دی۔ آسٹریلیا، کمبوڈیا، ویت نام، چلی، عراق، مشرقی تیمور، فلسطین اور اس سے آگے وہ مجبور ومقہور انسانوں کی آوازیں دنیا والوں تک پہنچاتے رہے۔سچائی کی تلاش میں آپ کی بہادری کے لیے آپ کا شکریہ — اسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔‘‘

    جان آسٹریلیائی حکومت کے اپنے ملک کے ایبوریجنل لوگوں کے ساتھ برتاؤ کے شدید ناقد بھی تھے ۔ انہوں نے ایک کتاب’’ دی سیکریٹ کنٹری‘‘ (A Secret Country)لکھ کر یہ سچ نمایاں کیا کہ انگریز آسٹریلوی ماضی میں کیونکر ایبوریجنل باشندوں کو ظلم وستم کا نشانہ بناتے رہے اور کس طرح ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا جہاں وہ ہزاروں سال سے آباد تھے۔

    حالیہ برسوں میں جان پیلگر وکی لیکس کے بانی، جولین اسانج کے پُرزور حامی رہے جو اس وقت بیلمارش جیل میں ہے۔ وہ 2010 ء اور 2011 ء میں ہزاروں خفیہ امریکی دستاویزات کی اشاعت سے متعلق الزامات کے تحت مقدمہ لڑ رہا ہے۔انہوں نے اسانج کو ایک “سچ بولنے والا” قرار دیا جس نے کوئی جرم نہیں کیا بلکہ حکومتی جرائم اور جھوٹ کو وسیع پیمانے پر ظاہر کر ڈالا۔

    1990 ء میں بی بی سی ریڈیو چار کے ڈیزرٹ آئی لینڈ ڈسک پر ایک انٹرویو میں جان نے کہا تھا ’’ وہ ہمیشہ جنگ کے متاثرین میں دلچسپی رکھتے ہیں، ایسے لوگ جو مصائب و آلام کی وجہ سے بھاگ رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں، صحافت کچھ بھی نہیں اگر یہ انسانیت کے بارے میں نہیں ہے ۔ اسے لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں ہونا چاہیے۔”

    جان پیلگر نے 2005ء میںایک کتاب’’مجھے جھوٹ مت بتاؤ‘‘ (Tell Me No Lies: Investigative Journalism and its Triumphs)ایڈٹ کی تھی۔اس میں انھوں نے اپنی صحافتی اقدار کا خلاصا کچھ یوں بیان کیا:

    “خفیہ طاقتیں ان صحافیوں سے نفرت کرتی ہیں جو ایمان داری سے اپنا کام کرتے ہیں، جوپردوں کے پیچھے موجود سچ آشکار کرتے ، چہروں کے پیچھے موجود اصل چہرے سامنے لاتے ،سرنگوں میں جھانکتے اور پتھر اٹھاتے ہیں۔طاقتوں اور باثر افراد کی جانب سے کیے گئے اُن پہ مظالم ایسے صحافیوں کے نزدیک عزت و آن وشان کا نشان ہوتاہے۔”