عام انتخابات 2024ء؛ سیاسی جماعتیں پہلی بار پانچ فی صد خواتین امیدواروں کی پابند

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1965ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف حزب اختلاف کی متفقہ صدارتی امیدوار بن کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صنف نازک کے ایک نئے کردار کی نیو رکھ دی تھی۔

    اگرچہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں شکست سے دوچار کیا ، لیکن وہ پاکستان سیاسی تاریخ میں ان کا مقام بلند تر ہونے سے نہ روک سکی۔ سرکاری مداخلت کے باوجود وہ اس کے باوجود وہ مشرقی پاکستان اور کراچی میں کسی بھی دھاندلی سے بچ کر فتح یاب ہوگئی تھیں۔ اس کے بعد کے ادوار میں ذوالفقار علی بھٹو کی شریک حیات بیگم نصرت بھٹو، ان کی صاحب زادی بے نظیر بھٹو انتخابی سیاست میں چار، چار بار سرخ رُو ہو کر قومی اسمبلی تک رسائی پا چکی ہیں۔

    بیگم نسیم ولی بھی اپنی جماعت ’ نیشنل عوامی پارٹی‘ کے کالعدم قرار دینے جانے کے بعد کے کڑے وقت میں میدان عمل میں آئیں اور بہت سے مرد امیدواروں کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئیں۔ اس وقت ان کے شوہر ولی خان اسیر تھے۔ اسی طرح بیگم کلثوم نواز کو بھی نواز شریف کی نااہلی کے دوران بستر علالت سے رکن قومی اسمبلی بنوایا گیا، ان کے مدمقابل تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد امیدوار تھیں۔

    پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد ان کی شریک حیات غنویٰ بٹھو بھی انتخابی سیاست میں اتر چکی ہیں۔ جنوبی پنجاب کی نمایاں پارلمینٹرین عابدہ حسین بھی عام نشستوں سے قومی اسمبلی پہنچتی رہی ہیں۔ ایسے ہی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی جانب سے نسرین جلیل اور خوش بخت شجاعت، پاکستان پیپلز پارٹی سے شازیہ مری، فہمیدہ مرزا، اور تحریک مساوات کی مسرت شاہین وغیرہ بھی عام نشستوں پر قومی اسمبلی کی امیدوار اور رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔

    1993ء میں مولانا حسرت موہانی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والی محترمہ رئیسہ موہانی ’ایم کیو ایم‘ کے ٹکٹ پر عزیزآباد سے قومی اسمبلی کی امیدوار نام زد کی گئی تھیں، لیکن اس وقت جاری فوجی آپریشن کے خلاف ’ایم کیو ایم‘ کے بائیکاٹ کے سبب انھوں نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا تھا۔

    سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن عذرا فضل پیچو ہو بھی دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز بھی پہلی دفعہ انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی اس حوالے سے معروف ناموں میں شمار ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر اشرف عباسی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر تھیں۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حالیہ ترامیم کے تحت اب عام نشستوں پر پانچ فی صد خواتین امیدواروں کی شمولیت لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں چھے کروڑ کے لگ بھگ خواتین انتخابی فہرستوں میں موجود ہیں۔ حالیہ عام انتخابات کے موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں نے پانچ ہزار سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے ہیں، لیکن ان میں خواتین کی تعداد محض 300 کے قریب ہے۔

    اس بار سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار صنم جاوید موجود ہیں۔ یوں تو قومی اسمبلی میں خواتین ارکان کی ایک مخصوص تعداد فتح یاب جماعتوں کے تناسب کے حساب سے بانٹ دی جاتی ہیں، لیکن اب تک 64 خواتین نے عام انتخابات میں حصہ لیا ہے۔

    صحافی عباد الحق کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر اشرف عباسی مخصوص نشست سے رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد عام نشست پر منتخب رکن قومی اسمبلی بھی بنیں اور دونوں مرتبہ قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر بھی فائز ہوئیں۔

    سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سب سے زیادہ (پانچ بار) رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کا منفرد ریکارڈ رکھتی ہیں۔ وہ 1997ء سے مستقل رکن قومی اسمبلی منتخب ہو رہی ہیں، اس اعتبار سے وہ گذشتہ 25 برسوں سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں موجود ہیں۔

    پنجاب سے غلام بی بی بھروانہ چار مرتبہ عام نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوچکیں۔ سابق پاکستانی سفیر بیگم عابدہ حسین اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما تہمینہ دولتانہ تین، تین مرتبہ یہ اعزاز رکھتی ہیں۔ حنا ربانی کھر بھی 2002ء اور 2008ء میں نہ صرف رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں، بلکہ پہلی خاتون وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

    مسلم لیگ (ن) کے راہ نما پرویز ملک کی اہلیہ شائستہ پرویز نے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے براہ راست انتخاب لڑا اور رکن قومی اسمبلی بنیں۔ 2010 ء میں ضمنی انتخابات میں جعفر آباد بلوچستان سے کسان خاتون مائی جوری وہاں کی پہلی خاتون امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔اس سے قبل 2002ء میں زبیدہ جلال بھی عام نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور پھر وفاقی وزیر تعلیم بنیں۔

    اس مرتبہ لاہور میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد سابق وزیراعظم نواز شریف کے مدمقابل ہیں، جب کہ عالیہ حمزہ کا مقابلہ حمزہ شہباز شریف سے ہے۔

    سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر پرویز الہیٰ کے کاغذات نام زَدگی مسترد ہونے پر اب ان کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں اور ان کا مقابلہ اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے سالک حسین سے ہے یعنی پھوپھی اور بھتیجے انتخابی دنگل میں آمنے سامنے ہیں، دیکھنا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

    ’بی بی سی‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ سے ثنا درانی بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کی خواہاں تھیں، ٹکٹ نہ ملنے پر اب آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

    سیاسی جماعتوں کی طرف سے میدان میں موجود امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر ان انتخابات میں بھی ان ہی خواتین کوٹکٹ دیے گئے ہیں، جو گزشتہ کئی انتخابات سے ان کی امیدوار رہی ہیں۔

    ان میں زیادہ تر وہ خواتین شامل ہیں جو خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے ووٹ بینک رکھتی ہیں یا پھر وہ خواتین جن کی پارٹی کی طرف سے مسلسل حمایت کے بعد پہچان بن چکی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 73 سیال کوٹ میں ہونے والا انتخابی دنگل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں ایک خاتون امیدوار نوشین افتخار مرد حریفوں کے خلاف میدان میں موجود ہیں اور اپنی کام یابی کے لیے پرامید بھی ہیں۔

    قومی اسمبلی کے حلقے 232 سے ’متحدہ قومی موومنٹ‘ (بہادر آباد) کی جانب سے آسیہ اسحق کو نام زد کیا گیا ہے۔ آسیہ اسحق ماضی میں جنرل پرویز مشرف کی ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ سے سیاسی میدان میں وارد ہوئیں۔ پھر 2016ء میں جب مصطفیٰ کمال نے انیس قائم خانی کے ساتھ مل کر اپنی الگ سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی (PSP) تو وہ اس کا متحرک حصہ بن گئیں۔

    نووارد جماعت ’پی ایس پی‘ نے 2018ء کے عام انتخابات میں ’ڈولفن‘ مچھلی کے انتخابی نشان سے حصہ بھی لیا، تاہم ناکامی سے دوچار ہوئی۔ گذشتہ برس جب مصطفیٰ کمال کی ’پی ایس پی‘ کو ایم کیو ایم ’بہادر آباد گروپ‘ میں مدغم کیا گیا، توآسیہ اسحق بھی اسی ’ایم کیو ایم‘ کا حصہ ہوگئیں، اور موجودہ انتخابات میں انھیں قومی اسمبلی کی عام نشست سے امیدوار بھی بنایا گیا ہے۔

    پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک دو ایسی خواتین امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے جو اقلیتی برادری سے تعلق رکھتی ہیں یا پھر بڑے خاندان سے نہیں ہیں۔ بڑی جماعتوں میں سب سے کم جنرل نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ پاکستان مسلم لیگ ن نے جاری کیے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے 20 سے زائد خواتین امیدواروںکو قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔ اس کی بڑی وجہ بہت سے امیدواروں کے کاغذاتِ نام زدگی مسترد ہونا بتائی جاتی ہے۔

    رکن سندھ اسمبلی محترمہ فیروزہ بیگم کی مشقت!

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جبر کے ہاتھوں جب بھی کسی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکنوں پر کوئی بھی برا وقت آیا ہے، خواتین نے ہمیشہ جدوجہد کی مشعل تھام کر تحریک کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں پر سیاسی مخالفین اور آمروں کی جانب سے عتاب نازل ہوا تو ان قائدین کے خاندانوں کی خواتین سامنے آئیں، وہیں1996ء میں کراچی میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس میں ایک ماں نے جدوجہد کا ذمہ نبھایا۔

    ان دنوں بھی ’ایم کیو ایم‘ عتاب کا شکار تھی اور اس کے مختلف ارکان گرفتار اور روپوش تھے، انھی میں نوجوان رکن قومی اسمبلی حافظ اسامہ قادری بھی تھے، جو حکومت کی جانب سے سر کی قیمت مقرر کیے جانے کے بعد روپوشی کاٹ رہے تھے۔

    لہٰذا ’ایم کیو ایم‘ نے اس عرصے میں ان کی والدہ فیروزہ بیگم کو رکن صوبائی اسمبلی منتخب کرایا، لیکن بدقسمتی یہ کہ جبر کا ہاتھ دھیما نہ پڑا اور اس نے فیروزہ بیگم کو جبراً حکم راں پیپلز پارٹی میں شامل کروا کر وزیر بنوا دیا۔ اور یوں ایک مجبور ماں نے اپنی ممتا سے مجبور ہو کر ناچاہتے ہوئے بھی یہ قدم اٹھایا۔ تاہم پھر انھوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو بتایا  کہ وہ صرف اپنے بیٹے اسامہ قادری کی جان بچانے کے لیے وزیر بنی ہیں۔

    اس افسوس ناک واقعے کے نتیجے میں بے نظیر حکومت پر شدید دباؤ قائم ہوا اور حکومت کو مختلف تجزیہ کاروں اور صحافتی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس وقت انگریزی معاصر ’ڈان‘ اخبار کے معروف کالم نگار اردشیر کاؤس جی نے بھی اس واقعے کا ذکر اپنے کالم میں کیا تھا۔

    اقلیتی خاتون امیدوار توجہ کا مرکز

    صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سویرا پرکاش صوبائی اسمبلی کے حلقے ’پی کے‘ 25 سے پیپلز پارٹی کی نام زَد ہیں۔ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو بونیر سے عام چناؤ میں سامنے آئی ہیں۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے بونیر میں مقیم ہے اور ان کے والد ڈاکٹر اوم پرکاش اور والدہ ڈاکٹر الیا پرکاش بونیر ہی میں ایک میڈیکل سینٹر بھی چلاتے ہیں۔ جہاں ’یتیموں، بیواؤں، مدارس کے طلبہ اور غریبوں کا معائنہ مفت کیا جاتا ہے۔

    ایبٹ آباد سے ’ایم بی بی ایس‘ کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر سویرا کے مطابق وہ اپنے والدین کی سماجی خدمات سے متاثر ہو کر سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔ انھوں نے ایک خبری ویب سائٹ کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے ’میڈیکل کی تعلیم کے دوران دیکھا کہ بونیر میں بہت سے پیچیدہ مریضوں کو بڑے شہر لے جانا پڑتا ہے۔ لہٰذا وہ منتخب ہوکر انھی مسائل کو حل کریں گی، نیز وہ اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے بھی خدمات انجام دینے کا عزم رکھتی ہیں۔

    ڈاکٹر سویرا پرکاش کا دعویٰ ہے کہ انھیں دیگر سیاسی جماعتوں کے حامی بھی ووٹ دینے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انھیں کبھی مذہبی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم بطور خاتون تفریق ضرور محسوس کی ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی بونیر کے شعبہ خواتین کی معتمد بھی ہیں، لیکن یہاں پر خواتین کی تنظیم باقاعدہ طور پر فعال نہیں اور یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم میں مردوں نے جو ساتھ دیا ہے وہ قابل دید ہے۔

    25 سالہ ڈاکٹر سویرا کو ہندوستان میں بھی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے، ہندوستان کے مختلف چینل انھیں حیرت اور جذبات کے ملے جلے انداز میں نمایاں کر رہے ہیں، ان سے پاکستان میں ہندوؤں کی صورت حال اور مسائل کے حوالے سے مختلف سوالات کیے جا رہے ہیں، بہت سے ٹی وی میزبان ان سے ایسے سوالات بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے کوئی متنازع بات ہو سکے ، لیکن ڈاکٹر سویرا بہت بردباری کے ساتھ ان تمام سوالات کا جواب دیتی ہیں۔

    انھوں نے تصدیق کی کہ انھیں ہندوستان ہی سے نہیں بلکہ نیپال اور بنگلا دیش سے بھی حوصلہ افزائی کے پیغامات سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر مل رہے ہیں۔ ان دنوں ڈاکٹر سویرا ’ایم بی بی ایس‘ اور ہاؤس جاب سے فارغ ہو کر وہ اب ’سی ایس ایس‘ کی تیاری کر رہی ہیں۔

    خواجہ سعد رفیق اور لطیف کھوسہ سے مقابلہ!

    ڈاکٹر زیبا وقار وڑائچ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے پہلی بار انتخابی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔ وہ این اے 122 لاہور سے امیدوار ہیں۔ ان کے شوہر وقار ندیم وڑائچ طویل عرصے سے سیاست میں ہیں اور جماعت اسلامی سے ہی منسلک ہیں۔ ڈاکٹر زیبا وقار گائناکالوجسٹ ہیں لیکن انہوں نے اپنے پیشے کو خیر آباد کہا اور قرآن کی تعلیم لی اور اب وہ ایک نئے میدان میں آ رہی ہیں۔ انھیں تحریک انصاف کے لطیف کھوسہ اور مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کی مسابقت کا سامنا ہوگا۔

    ان کی سرگرمیاں ’قرآن ہاؤس کی کلاسیں رہتی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ یہاں کا پورا سسٹم، یہاں کا سارا انتظام اور بچیوں سے بات چیت ہوتی ہے۔ یہ بچیاں جو ہمارے پاس پورے پاکستان سے آتی ہیں، جو والدین نے اعتماد کے ساتھ ہمارے پاس بھیجی ہیں۔ میں ان کے ساتھ ایک معیاری وقت گزارتی ہوں۔ وہ سیاست کے ساتھ کلام پاک کی درس وتدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ سیاسی نام زَدگی کے بعد ڈاکٹر زیبا کے معمولات میں انتخابی مہم کا اضافہ ہوچکا ہے۔ قرآن گھر سے وہ اپنے حلقے میں جاتی ہیں، کہتی ہیں کہ اگر وہ یہ نشست جیت گئیں تو ان کا منصوبہ قرآن کی تعلیم پر عمل کروانا ہے۔

     افسانہ نگار مطربہ شیخ بھی میدان میں ہیں

    کراچی میں گلشن اقبال، گلستان جوہر اور بہادرآبادوغیرہ جیسے علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 236 سے جہاں بہت سے امیدوار آس لگائے ہوئے ہیں، وہیں افسانہ نگار مطربہ شیخ نسیم بھی بطور آزاد امیدوار موجود ہیں۔ شفق نسیم المروف مطربہ شیخ مختلف سیاسی وسماجی موضوعات پر بے لاگ تحریریں لکھتی رہتی ہیں، ان کی کہانیاں، افسانے اور مختلف مضامین مختلف ویب سائٹ پر بھی شایع ہوتے رہتے ہیں۔

    ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’مناط‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا منشور علم وادب اور آگہی ہے۔ وہ کراچی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لکھاری ہیں، جو عوام کے لیے شعور کی بات اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانا چاہتی ہیں۔ ان کی انتخابی مہم صرف سوشل میڈیا ہی پر جاری ہے، کیوں کہ وہ کسی بھی قسم کی تشہیر کے وسائل نہیں رکھتیں۔ ’فیس بک‘ اور ’واٹس ایپ‘ پر وہ مختلف ویڈیو اور ’پوسٹ‘ کے ذریعے لوگوں تک اپنا انتخابی منشور اور پروگرام پہنچا رہی ہیں۔

    این اے 236 میں شفق نسیم (مطربہ شیخ) کا انتخابی نشان A ہے، جب کہ ان کے مدمقابل جماعت اسلامی کے اسامہ رضی کا نشان تراز، مہاجر قومی موومنٹ کے بابر مرزا ایڈووکیٹ کا موم بتی، متحدہ قومی موومنٹ (بہادرآباد) کے حسان صابر کا پتنگ، پیپلز پارٹی کے محمد مزمل قریشی کا تیر اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عالمگیر خان محسود کا انتخابی نشان ’بینگن‘ ہے۔

    عالمگیر محسود یہاں سے پچھلی مرتبہ بھی رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے 2018ء میں عمران خان نے انتخاب جیتا تھا اور اس وقت ’متحدہ‘ کے علی رضا عابدی ان سے پیچھے رہ گئے تھے، بعد میں عمران خان نے میانوالی کی نشست رکھ لی تھی اور اس نشست سے مستعفی ہوگئے تھے، اور پھر ضمنی انتخابات کرانے پڑے تھے۔ مطربہ شیخ کا کہنا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد ہرگز یہ حلقہ نہیں چھوڑیں گی، بلکہ عوام ہر لمحہ انھیں اپنے درمیان پائیں گے۔