معاشی روڈ میپ، مستحسن اقدام

    وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آیندہ پانچ برس میں ملکی معیشت کو استحکام دے کر اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، ڈیجیٹلائزیشن اور جدت سے محصولات بڑھائیں گے، زرعی شعبے میں بھی جدت سے فی ایکٹر پیداوار بڑھائیں گے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی ترجیحی بنیادوں پر نجکاری کی جائے گی۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے پانچ سالہ معاشی روڈ میپ پر اعلیٰ سطح جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشن کا خیرمقدم کرتے ہوئے ملک کی اقتصادی نمو و استحکام کے لیے اصلاحات کے ایجنڈے پر آئی ایم ایف کے ساتھ کام کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا ہے۔

    بلاشبہ کثیر جہتی معاشی و اقتصادی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک معاشی روڈ میپ کا اعلان مستحسن اقدام ہے۔ اس وقت شدت سے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات بڑھانے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مربوط اور منظم کوششوں کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کیونکہ یہ اقدامات ملک کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس کے شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنے میں اہم ہیں۔

    درحقیقت ہماری ترقی کی صلاحیت ہماری معاشی ترقی کی صلاحیت سے کافی کم ہے۔ ملکی معاشی ترقی اور آبادی کے اضافے میں بھی توازن قائم نہیں رکھا جاسکا۔ ایک معاشی جائزے کے مطابق ملک میں کم پیداوار کی وجوہات سیلاب، توانائی کا بحران اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے ہیں، مگر یہ عوامل کم عرصے پر محیط ہیں، لیکن ایک لمبے عرصے کے لیے پیداوار کو بڑھانے کی خاطر جن اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ان میں اداروں کی مضبوطی اور ایک فعال حکومتی ڈھانچہ شامل ہیں۔

    ایک نظریے کے مطابق ترقی کے حصول کے لیے سرمائے کی موجودگی ناگزیر ہے کیونکہ صرف سرمایہ پیداوار کے اضافے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ کار ہمارے ملک کی طرف رخ کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔

    اصل میں پاکستان میں سرمایہ اور سرمایہ کاری کی کمی کی وجوہات میں سرفہرست ملکی افرادی قوت کو صحیح طور پر ملکی ترقی کے حوالے سے استعمال نہ کیا جانا اور تکنیکی پسماندگی ہیں۔

    معاشیات کی ایک تحقیق کے مطابق ادارے ترقی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان ہی کے حوالے سے ملک میں ترقی اور پیداوار کے لیے سازگار ماحول پیدا اور قائم رکھا جاسکتا ہے، اگر ملکی ادارے کمزور اور غیر موثر ہونگے تو کسی بھی معاشرے میں پیداوار اور ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں کیا جاسکتا اور قانون کی بالادستی بھی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ انصاف کے حصول میں دشواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔

    آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کثیر جہتی ہیں، جس سے آبادی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور گھریلو بجٹ دباؤ کا شکار ہے۔ تشکیل پانے والی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ عوام کو اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سلسلہ روک کر کس طرح ریلیف فراہم کرتی ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں کمی سے معاشی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔

    آمدنی اور اخراجات کے درمیان یہ فرق ایک پیچیدہ چیلنج ہے۔ عالمی مارکیٹ میں اشیا سستی ہونے کا فائدہ صارفین کو نہیں پہنچایا جاتا جب کہ مہنگی ہونے پر فوراً صارفین پر بوجھ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ حکومت اگر قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کرانا چاہے بھی تب بھی مفاد پرست حلقے ایسا نہیں کرنے دیتے اور حکومت ایسے طبقے کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتی ہے ، چنانچہ پاکستان میں پٹرول مافیا اور آٹا مافیا الگ الگ اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتے ہیں، مگر کسی ایک کے خلاف بھی کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں ہوئی۔ نئی حکومت نے اقتدار کا مرحلہ مکمل کیا ہے۔

    پاکستان کی 96 فیصد آبادی معیاری خوراک کے حصول کی استعداد نہیں رکھتی۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعدآئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے مزید پیکیج کے لیے مذاکرات کررہی ہے، جب کہ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات بشمول داخلی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 77.66کھرب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔

    پاکستان کا فی کس قرضہ سال دو ہزار گیارہ میں 823 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 2023 میں 1122ڈالر فی کس ہوا، جو بارہ سال میں مجموعی طور پر چھتیس فیصد اضافہ ہے صرف توانائی سیکٹرکا خسارہ پانچ ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ ریلوے، اسٹیل ملز، پی آئی اے سمیت دو تہائی حکومتی ادارے خسارے میں جا رہے ہیں جب کہ خسارے میں جانے والے اداروں کی افسر شاہی اربوں روپے کی مراعات لے رہی ہے۔

    وفاقی حکومت آٹھ سو ارب پنشن دے رہی ہے جب کہ چاروں صوبوں کا یہ کل بل ایک ہزار ارب روپے سے بھی کم ہے۔ حکومت اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے محکموں کو ختم نہیں کر سکی اور قرض لے کر افسر شاہی کی عیاشیاں برداشت کر رہی ہے۔

    پاکستان کی معیشت کو درپیش بڑے خطرات میں میکرو اکنامک عدم توازن، بڑھتے ہوئے قرضے، سرکاری اداروں کے خسارے، ماحولیاتی تنزلی، پبلک پرائیویٹ شراکت داری کو لاحق خطرات، صوبائی مالیاتی نظم و ضبط اور گورننس کے مسائل شامل ہیں۔

    قدرت نے جغرافیائی اعتبار سے ہمیں بہترین زرخیز ملک اور خطہ عطا کیا ہے، جو بے بہا نعمتوں سے مالا مال ہے۔ سونا، چاندی، تانبے کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کے خزانے اس میں مدفون ہیں۔ نایاب قیمتی پتھر اور ہیرے جواہرات کی فراوانی ہے۔ تیل، گیس اور کوئلہ کی کمی نہیں۔ دریا، نہریں اور آب پاشی کا نظام موجود ہے، جس کی بنا پر زرخیز زمین سونا اُگل رہی ہے۔

    کون سا پھل اور کونسی زرعی جنس ہے جو پاکستان میں نہیں اُگتی۔ پاکستانی قوم محنت کش اور جفاکش قوم ہے چونکہ ہمارا ملک، زرعی ملک ہے، اور زراعت کی ترقی پانی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے پانی کے ذخیرہ کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیموں کا ہونا بہت ضروری ہے اور ساتھ ہی زرعی پیداوار کی ترقی اور منڈیوں تک اس کا باحفاظت پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام ہونا بہت ضروری ہے۔

    سیاحت کے لحاظ سے اگر دنیا کے دس بہترین ممالک کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو ان ممالک کی سیاحت سے حاصل کی گئی کُل آمدنی اور پاکستان کی سیاحتی آمدنی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہمارا ملک سیاحتی مقامات اور موسموں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا مگر ہم سے سیاحت کے ہر پیرائے میں پیچھے ممالک اپنے اس سیکٹر کی ترقی سے بہت آمدن حاصل کر رہے ہیں۔

    سیاحتی انفرا اسٹرکچر پر بھی توجہ دینی چاہیے یعنی شمالی علاقہ جات پر شیشے کے پل کی تعمیر، مصنوعی جھیلیں، میگا نیچر پارکس اور بہترین عجائب گھر بنائے جا سکتے ہیں۔ حکومت اور نجی شعبہ باہم مل کر بھی سیاحت کی صنعت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ایک ایسا نظام بنانا چاہیے جہاں حکومت غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان لانے کا کردار ادا کرے اور جو نجی شعبہ ہے وہ اپنے مُلک میں آئے مہمانوں کا خیال رکھے اور اُن کی دیکھ بھال کرے۔ اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کو مراعات دے تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار اس صنعت کی ترقی کا کردار بن سکیں۔

    ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ اضلاع سیاحت کی آمدنی سے براہ راست مستفید ہوں۔ سیاحت کی آمدنی سے مقامی افراد براہِ راست فائدہ حاصل کر سکیں جس سے اُن کے روشن مستقبل کی راہیں مزید روشن ہوں۔ ملکی معیشت کی ترقی میں آئی ٹی سیکٹر کا کردار بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس شعبے کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنا رہی ہے۔

    ٹیکنالوجی بالخصوص مصنوعی ذہانت سے دنیا کا منظر نامہ بدل رہی ہے۔ آیندہ آنے والے سالوں میں مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کے فروغ سے صرف کام کے انداز اور نوعیت بدلے گی جب کہ پہلے سے زیادہ ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ کچھ عرصہ قبل اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل قائم کی گئی ہے جس کا مقصد معیشت کے پانچ اہم شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حصول ہے ان میں سے ایک آئی ٹی سیکٹر بھی ہے۔ اگر ہم اس شعبہ کو درکار سہولیات تک رسائی آسان بنا دیں تو آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں۔

    یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک آئی ٹی کے شعبے میں کم وسائل کے باوجود فری لانسنگ میں عالمی سطح پر اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی بنائی ہوئی گیمنگ ایپس دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ سرکاری اور نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرزکو شامل کر کے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے منفرد اقدامات کر رہا ہے۔

    ہم سب کو خلوصِ نیت سے اس ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں سادگی، صداقت، امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت، جدوجہد اور کوشش کرنا ہوگی۔ آج جو ممالک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہیں، ان کی حکومت اور قوم نے اپنا مقصد، نصب العین اور رُخ ایک متعین کرکے محنت اور کوشش کی، تو وہ منزلِ مقصود اور مراد تک پہنچ سکے، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب ملکی ترقی کے لیے یہ کام کریں، تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر اتفاق سے ’’ میثاقِ معیشت ‘‘ مرتب کریں۔