مینگروز کے درختوں کے تحفظ کے لیے منفرد انداز میں آگاہی

      کراچی: طوفانوں اور سیلابوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار سمجھے جانے والے مینگروز کے درختوں کے تحفظ کے لیے منفرد انداز میں آگاہی فراہم کی گئی۔

    پاکستان میں کم گنجائش کے حامل طیاروں کے ذریعے پہلی بار ائیر ٹیکسی سروس متعارف کروانے والے اسکائی ونگز ایوی ایشن کے طیارے نے پورٹ قاسم اور گھارو کے گردونواح میں 3 ہزار فٹ کی بلندی سے مینگروز کے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان کو اجاگر کیا، جدید جہاز ڈائمنڈ ڈی اے 40 نے پونے گھنٹے کے دوران دوطرفہ مشن کو مکمل کیا۔

    حجم میں دیگر طیاروں کے مقابلے میں چھوٹا مگر انتہائی مشاق اسکائی ونگز ایوی ایشن کے فضائی بیڑے میں شامل ڈائمنڈ ڈی اے 40 جہاز نے کراچی ائیرپورٹ کے قریب واقع جنرل ایوی ایشن ہینگر سے اڑان بھری جس کا مقصد سمندر کا حفاظتی پشتہ اور آبی حیات کی افزائش کے اہم کردار مینگروز کے درختوں کی بے دریغ کٹائی کی جانب توجہ مبذول کروانا تھا۔

    چار نشستوں کے حامل جہاز نے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز ہوکر پورٹ قاسم اور گھارو کی ساحلی پٹی تک مینگروز کی درختوں پھیلے جنگلات پر اڑان بھری جس کا عنوان تھا ’’آئیے سمندروں کے خاموش محافظوں کی ڈھال بنیں‘‘۔

    پرواز نے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر 180 کلومیٹر کی رفتار سے پونے گھنٹے مسلسل اڑان کے بعد جناح ٹرمینل کے رن وے 25 ایل پر لینڈنگ کی جس کے بعد یہ مینگروز کے حوالے آگاہی و تعمیری سفر اختتام پذیر ہوا۔

    پرواز کے ٹیک آف سے قبل ایکسپریس نیوز سے گفتگو کے دوران جہاز کے کپتان احد یوسف عباس کا کہنا تھا کہ مینگروز کے درخت کی لکڑی کو چولہے میں جھونکنے اور اس کے پتوں کی جانوروں کو چارے کے طور پر استعمال کے بعد کراچی سمیت سندھ کی ساحلی پٹی کو ایک خطرے کی نذرکردیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ انسانی ہاتھوں اس تباہی کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جنگلات کی کٹائی پر لب کشائی کی جائے کیونکہ موجودہ دورمیں ماحولیاتی تغیر کے دوران یہ واحد ایک ایسی حفاظتی دیوار ہے،جو بپھرے ہوئے سمندر اور طوفانوں کا راستہ روک سکتا ہے۔

    مینگروز کے جنگلات کی آگاہی کے لیے اڑان بھرنے والی خصوصی پرواز کے انتظامات کرنے والے اسکائی ونگز مینیجمنٹ سے وابستہ تصدق حسین گیلانی کے مطابق اس وقت اقوام عالم نے ماحولیاتی بچاؤ کے لیے سرجوڑ لیے ہیں جس کی حالیہ مثال متحدہ عرب امارت میں منعقدہ کوپ 28 کانفرنس ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ پاکستان بھی اس اہم معاملے پر اپنا حصہ ڈالے کیونکہ مزید اگر ان مینگروز کی بے دریغ کٹائی جاری رہی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سمندر کے سینے سے اٹھنے والے خطرات کو ہم خود دعوت دیں گے۔