وفاقی اردو یونیورسٹی سنگین مالی بحران کا شکار

      کراچی: وفاقی اردویونیورسٹی مالی طورپر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے،  وفاقی حکومتوں کی عدم توجہی اورچانسلرسیکریٹریٹ کی غیر سنجیدگی اورلاتعلقی کے سبب قومی زبان اردوکے نام پر قائم کی گئی یہ جامعہ اپنے قیام کے 20ویں برس عملی طورپر دم توڑرہی ہے۔

    اس بات کاانکشاف یونیورسٹی کی موجودہ قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹرروبینہ مشتاق کی جانب سے 20فروری کوصدرپاکستان ڈاکٹرعارف علوی کی جانب سے یونیورسٹی سینیٹ کے بلائے گئے اجلاس کے سلسلے میں لکھے گئے آفیشل خطوط سے ہوا ہے اوران خطوط کی بناپر پہلی باریونیورسٹی کے بدترین مالی خسارے سے جڑے معاملات کوسینیٹ کے اجلاس کے ایجنڈے کاحصہ بھی بنالیا گیا ہے۔

    ان خطوط سے انکشاف ہوا ہے کہ نومبر2023 سے اردویونیورسٹی اپنے ملازمین کوتنخواہیں اورپینشن اداکرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ امورنمٹانے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی  ہے۔

    گزشتہ تین برس سے مختلف واجبات کی ادائیگیاں نہیں کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں موجودہ انتظامیہ کوٹیچرز،ایگزامینیشن اسٹاف اوروینڈرزکے 1200ملین سے زائد کے قرضوں کا سامنا ہے اوریونیورسٹی کوبچانے اوریہاں زیرتعلیم طلبا کے تعلیمی سلسلے کوجاری رکھنے کے لیے فوری طورپر بجٹ کے علاوہ 1700ملین روپے کی وصولی درکارہے۔

    واضح رہے کہ مالی صورتحال پر قائم مقام وائس چانسلرکی جانب سے انکشافات پر مبنی یہ رپورٹ ایسے اجلاس میں پیش کی جارہی ہے جو یونیورسٹی کے نئے مستقل وائس چانسلرکے تقررکے سلسلے میں بلایا گیا تھا جس میں جامعہ اردوکی تلاش کمیٹی  نئے وائس چانسلرکے تقررکے سلسلے میں پانچ منتخب نام سینیٹ کے حوالے کررہی ہے۔

    سینیٹ ان پانچ میں سے تین نام یونیورسٹی کے چانسلر/صدرمملکت کے حوالے کرے گی جس میں سے صدرکسی ایک نام کی منظوری دیں گے تاہم اب یونیورسٹی کی موجودہ بدترین مالی صورتحال کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ سرچ کمیٹی کی جانب سے منتخب پانچ ناموں میں سے جوبھی ماہرتعلیم بحیثیت وائس چانسلریونیورسٹی کا انتظام سنبھالے گا اسے اس ڈوبتی ہوئی جامعہ کوبچانے کے لیے شدید چیلنجز کا سامنا رہے گا کیونکہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن بھی تاحال یونیورسٹی کواس بدترین مالی بحران سے نکالنے کے لیے وفاقی حکومت سے کسی قسم کی سفارش کرنے کوتیارنہیں ہے۔

    ”ایکسپریس“کے رابطہ کرنے پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرمختاراحمد کاکہناتھاکہ فنڈزکہاں سے لائیں، وفاقی حکومت کوئی اضافی فنڈزدینے کوتیارنہیں ہے،  آئی ایم ایف سے یہ وفاقی حکومت کا”کمٹمنٹ“ہے کہ کسی بھی ادارے کوسپلیمنٹری گرانٹ نہیں دی جائے گی پھرکیسے اردویونیورسٹی کوپیسے دے دیں۔

    اردویونیورسٹی کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ وہاں کے وائس چانسلرزکمال پر کمال کرچکے ہیں، چانسلرآفس سمیت کسی کی بات نہیں سنتے اپ گریڈیشن اورتقرریاں کی جارہی ہیں پھرکہتے ہیں اضافی پیسے دو۔

    ان کا کہنا تھاکہ یہ مسئلہ ایک روز کا نہیں ہے وہاں کے لوگ نالائقیاں اوردونمبری کررہے ہیں،  اگر گورنرزٹھیک کرلیں گے توبہتری آسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ نا صرف یونیورسٹی کوبدترین مالی خسارے کاسامناہے بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ جامعہ اردومیں داخلوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے،  انتظامیہ نے دعویٰ کیاہے کہ ملکی معاشی صورتحال کے تناظرمیں یہ کمی دیگرجامعات کی طرز پر ہی ہوئی ہے جبکہ تنخواہوں اورپینشنز کی ادائیگاں بھی تعطل کاشکارہیں۔

    واضح رہے کہ اردویونیورسٹی کاقیام سابق صدرپاکستان جنرل پرویزمشرف کے دورمیں ڈاکٹرجمیل الدین عالی کی کوششوں سے سن 2002 میں عمل میں آیا تھا، ااورڈاکٹرپیرزادہ قاسم رضاصدیقی اس کے پہلے بانی وائس چانسلرتھے۔

    اب اپنے قیام کے 20 برس بعد اسی یونیورسٹی کی صورتحال کے بارے میں آفیشل دستاویزات بتارہے ہیں کہ جنوری کے مہینے کی پینشن کی ادائیگیاں باقی ہیں،  کمیوٹیشن کی مد میں 50ملازمین کو159ملین روپے،24ریٹائرڈملازمین کولیووانکیشمنٹ کی مد میں 26ملین روپے،تھیسز ایویلیوایشن کے اعزازیے کی مد میں 50ملین روپے،جزوقتی اساتذہ کے اعزازیے کی مد میں 105ملین روپے واجب الادا ہیں۔

    رواں مالی سال میں آمدن اوراخراجات کے تناسب کے مطابق 934ملین روپے سے زائد کا خسارے تخمین کیا گیا ہے اوراس خسارے میں گزشتہ مالی سال کے واجبات کی رقم 468ملین روپے بھی شامل ہیں جوحکومتی اعلامیے کے ضمن میں ملازمین کی تنخواہوں سالانہ اضافہ، ایڈہاک ریلیف الاؤنس اورپینش میں اضافہ شامل ہے۔

    ادھر”ایکسپریس“نے اس صورتحال پر یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرپیرزادہ قاسم سے جب رابطہ کیاتواس صورتحال پر ان کا کہناتھاکہ اس یونیورسٹی کوبچانے کے لیے چانسلرکوسنجیدگی سے کوشش کرنی چاہیے،  سنجیدہ لوگوں کواس کی ذمے داری دینی چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس یونیورسٹی کے لکھے ہوئے قوانین دوسری جامعات سے مختلف اورمسائل کی وجہ ہیں،  جامعات کی اہم باڈی سینڈیکیٹ ہوتی ہے،  سینیٹ توسال میں ایک بار ہوتی ہے،  ان کامسئلہ یہ ہے کہ سینڈیکیٹ کی طرز کی باڈی اردویونیورسٹی میں سینیٹ ہے جس میں ہرجگہ سے نمائندگان شامل کرلیے جاتے ہیں۔

    پروفیسرڈاکٹرپیرزادہ قاسم  کا کہنا تھا کہ سینیٹ چیزوں کواس انداز میں نمٹا نہیں سکتی ،  اردویونیورسٹی کی سینیٹ میں سنجیدہ روی نہیں ہے،  وائس چانسلرنہیں ہے عارضی چلارہے ہیں،  سب اپنے اپنے مسائل میں لگے رہتے ہیں۔

    ایک سوال پر ڈاکٹرپیرزادہ قاسم کاکہناتھاکہ جتنی پبلک سیکٹرجامعات ہیں ان کووسائل کی کمی کاسامنا ہے،  گرانٹ بڑھائی نہیں جارہی،  اخراجات بڑھتے جارہے ہیں،  ایک سروے ہوناچاہیے اورریشنلی دیکھیں کہ کیا ہوناچاہیے کیونکہ پبلک سیکٹرکوان کی فیسوں سے نہیں چلایا نہیں جاسکتا جامعات گرانٹ پر چلتی ہیں فیسوں سے نہیں چل سکتیں۔