23 مارچ 1940ء۔۔۔ مسلمانانِ ہند کی ایک نئی صبح

    23 مارچ مسلم لیگ کے سنگ میل بننے والے اس سہ روزہ اجلاس کا دوسرا دن تھا، جب شیرِ بنگال مولوی فضل الحق کی جانب سے تاریخ ساز ’قراردادِ لاہور‘ پیش کی گئی۔۔۔

    اگرچہ قیام پاکستان میں قانونی طور پر اس قرارداد کا براہ راست کردار تو نہیں، لیکن یہ وہ تاریخی موڑ تھا، جس نے آزادی کے لیے سارے قانونی تقاضوں کی جانب مائل کیا تھا اور اگلے سات برس میں ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ یہ اسی قرار داد کی ہی تحریک تھی، جس کے نتیجے میں 1945-46ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مرکزی سطح پر تمام 30 نشستیں ملیں، صوبائی سطح پر صرف صوبہ سرحد واحد مسلم اکثریتی علاقہ تھا جہاں مسلم لیگ سرخرو نہ ہو سکی۔

    ’قراردادِ پاکستان‘ مسلمانانِ برصغیر کا ایک نیا اور ایک ایسا ابھار تھا، جس کا اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ یہ چند برس قبل کی کانگریس کے ہاتھوں انتخابی ناکامی کے بطن سے پھوٹنے والی امید کی ایک ایسی کرن تھی، جسے اب بہت تیزی سے روشن تر ہونا تھا۔۔۔ شاید جس کے جل اٹھنے کی ابتدا 1934ء میں محمد علی جناح کی لندن سے ہندوستان واپسی کی صورت میں ہوئی تھی کہ جب قائد ملت لیاقت علی خان نے انھیں دوبارہ سیاست میں فعال ہونے پر آمادہ کر لیا تھا۔

    ہندوستان میں 1935ء کے انتخابی نتائج کے بعد کانگریس بہت زیادہ مستحکم تھی، جب کہ شکست سے دوچار مسلم لیگ کسی مسلم اکثریتی علاقے میں تنہا وزارت بنانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی تھی، یوں مشترکہ وزارتوں کا ڈول ڈالا گیا، یہ وہی وقت تھا جب جداگانہ انتخاب کی جگہ مخلوط انتخاب، اردو کی جگہ ہندی زبان، سرکاری عمارتوں پر کانگریسی پرچم، اسکولوں میں وَندے ماترم پڑھوانا اور گاندھی تصویر کو سلامی جیسے ناپسندیدہ اقدام سامنے آئے اور برصغیر کے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا گیا کہ اب ان کا مستقبل کیا ہے۔۔۔؟

    1928ء میں قائداعظم کے مشہور زمانہ 14 نکاتی مطالبے اور 1930ء کے علامہ اقبال کے معروف خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے واسطے پیش کیے گئے ایک حل کے بعد محمد علی جناح کی سیاست سے مایوس ہو کر لندن میں سکونت اور پھر ان کی واپسی کے باوجود کانگریسی فتح کی صورت کسی طرح بھی امید افزا نہ تھی، لیکن پھر کانگریس کے انتہا پسندانہ رَویوں نے بہت تیزی سے حالات کو مسلم لیگ کے حق میں تبدیل کر دیا۔ اسی اثنا میں علامہ اقبال بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے، لیکن اب جو یہ اجلاس اقبال کے لاہور میں سجا ہوا تھا، یہاں اقبال اپنے اس شعر کی صورت میں ’منچ‘ پر جلوہ افروز تھے؎

    جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

    اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

    یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں اجلاس تھا، جو 22 تا 24 مارچ 1940ء لاہور کے ’منٹو پارک‘ میں منعقد ہوا اور قرارداد پاکستان 24 مارچ کو منظور کی گئی، جب کہ یہ تاثر عام ہے کہ یہ 23 مارچ کو منظور ہوئی، جب کہ دراصل یہ اس روز پیش کی گئی اور منظور اگلے روز کی گئی، تاہم قرارداد پیش ہونے کے اعتبار سے 23 مارچ بھی ایک تاریخی دن ہے۔

    اس جلسے کے تمام تر انتظامات مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم ’مسلم لیگ نیشنل گارڈز‘ نے کیے تھے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ اخراجات کے لیے 20 ہزار روپے جمع کیے گئے تھے، جب کہ پونے 11ہزار خرچہ ہوا، باقی رقم مسلم لیگ فنڈ میں جمع کرا دی گئی تھی۔ اس جلسے میں ایک لاکھ افراد کی موجودگی میں یہ قرارداد منظور کی گئی، اس میں اگرچہ پاکستان کا نام تک استعمال نہیں کیا گیا، صرف مسلمانوں کے خودمختار صوبوں یا اکائیوں کی بات کی گئی۔

    معروف محقق آزاد بن حیدر ’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ‘ میں لکھتے ہیں کہ اس قرارداد کا مسودہ قائداعظم اور سر سکندر حیات نے انگریزی میں لکھا اور سب سے پہلے مسلم لیگ مقاصد کمیٹی کے اجلاس میں لیاقت علی خان نے پڑھی تھی، جب کہ مولانا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ چار پیراگراف اور 400 الفاظ پر مشتمل تھی۔

    آج ہی کے تاریخی دن لاہور کے جلسے میں پیش کی گئی یہ قرار داد ’شیرِ بنگال‘ مولوی ابو القاسم فضل الحق نے پڑھی تھی، جس کی سب سے پہلے تائید صوبہ ’یوپی‘ سے تعلق رکھنے والے چوہدری خلیق الزماں نے کی، صوبہ سرحد سے سردار اورنگ زیب خان، سندھ سے سر عبداللہ ہارون، بِہار سے نواب محمد اسمعیل، بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ، مدراس سے عبدالحمید خان، بمبئی سے آئی آئی چندریگر، ’سی پی‘ سے سید عبدالرؤف شاہ سمیت ہندوستان بھر کے 11 صوبوں سے مندوبین نے اس کی تائید کی تھی، جس میں قرار پایا کہ ’’اس اجلاس کی نہایت سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اس ملک کے لیے کوئی آئینی منصوبہ قابل قبول نہ ہوگا جب تک اسے ان بنیادی اصولوں پر استوار نہ کرلیا جائے، اور ضروری علاقائی رد و بدل نہ کرلیا جائے، اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان اکثریت میں ہیں، انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ یونٹ آزاد اور خودمختار ہوں گے، ان یونٹوں کو اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی سیاسی انتظامی اور دیگر حقوق ومفادات کی ضمانت دی جائے۔‘‘

    شیرِ بنگال کی قرارداد اور پُراثر تقریر کے بعد چوہدری خلیق الزماں، مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب اور سر عبداللہ ہارون نے تائید کی، جس کے بعد اجلاس اتوار 24 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اجلاس کے تیسرے اور آخری روز قائد ذرا تاخیر سے تشریف لائے، ان کی غیر موجودگی میں ’مسندِ صدارت‘ نواب آف ممدوٹ سر شاہ نواز خان نے سنبھالی۔ جلسے کی کارروائی کے دوران لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ رات ساڑھے نو بجے قرار داد پر بحث کے لیے کھلا اجلاس ہوگا۔ اسی اثنا میں قائداعظم اجلاس میں آگئے، پھر بہار سے نواب محمد اسمعیل، مدراس سے عبدالحمید خان، بمبئی اسمبلی سے آئی آئی چندریگر، سی پی سے سید عبدالرؤف شاہ نے قرار داد کی تائید کی۔

    اس کے بعد ڈاکٹر محمد عالم نے بھی ’منچ‘ پر آکر اس قرارداد کی تائید کی اور قائداعظم کو خراج تحسین پیش کیا۔ وہ کچھ عرصہ قبل ہی مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ نو بجے اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو قائداعظم نے 19 مارچ 1940ء کو خاکساروں پر ہونے والی فائرنگ سے متعلق بھی ایک قرارداد پیش کی، جس کے بعد ’قرارداد لاہور‘ پر بحث شروع ہوئی۔

    سید ذاکر علی، بیگم صاحبہ مولانا محمد علی جوہر (امجدی بیگم) اور مولانا عبدالحامد بدایونی نے قرارداد کے حق میں تقاریر کیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے آئین میں ترامیم کی ایک قرار داد لیاقت علی نے پیش کی، جو اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی۔ اس جلسے میں حیدرآباد (دکن) کے شعلہ بیاں خطیب بہادر یار جنگ نے اردو میں اسلام اور جمہوریت پر تقریر کی۔ انھوں نے قائداعظم کی فرمائش پر دو بار تقریر کی۔

    ’قراردادِ لاہور‘ کو باقاعدہ ’قرارداد پاکستان‘ قرار دینے کا سہرا عام طور پر انتہا پسند ہندو اخبارات کو دیا جاتا ہے، جب کہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی نِیو بیگم محمد علی جوہر (امجدی بیگم) کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ آزاد بن حیدر لکھتے ہیں کہ اس اجلاس میں باقی تمام مقررین نے اسے ہندوستان کی تقسیم کی قرارداد کہا، حتیٰ کہ قائداعظم نے خطبہ صدارت میں بھی کوئی نام استعمال نہیں کیا، لیکن امجدی بیگم نے اس دن ہی اِسے ’قرار دادِ پاکستان‘ کے نام سے پکارا۔ تحریک آزادی میں ’پاکستان‘ کا نام چوہدری رحمت علی کی جدوجہد کے نتیجے میں عام ہو چکا تھا، تاہم اسے ’قراردادِ پاکستان‘ کے طور پر زبان زدِ عام کرنے میں ان تنگ نظر اخبارات کا زیادہ ہاتھ رہا۔ قائداعظم نے اس نام کو دسمبر 1940ء میں پہلی بار اپنایا۔

    قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے ’خطبۂ صدارت‘ میں کہا کہ ’’ہم نے ہندوستان کے ہر صوبے میں صوبائی مسلم لیگ قائم کر دی ہے۔ میں مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے آزمائش کے ان ایام میں ہمت و استقلال کا شان دار مظاہرہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے مخالفین کسی ایک بھی ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ کے مقابلے میں کام یابی حاصل نہ کر سکے۔ ’یوپی‘ کونسل کے پچھلے انتخاب میں مسلم لیگ کو سو فی صد کام یابی حاصل ہوئی۔ ہم نے پٹنہ کے اجلاس (1938ئ) میں خواتین کی ایک کمیٹی قائم کی تھی، ہمارے لیے اس کی بڑی اہمیت ہے۔

    عورتیں اپنے گھروں حتیٰ کہ پردے میں رہ کر بھی بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نے برطانوی حکومت کے اس اندازہ فکر کو بدل کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انھیں احساس ہوا کہ مسلم لیگ ایک طاقت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلم ہندوستان میں شعور و احساس پیدا ہو چکا ہے اور مسلم لیگ اب ایک ایسی طاقت وَر تنظیم کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ خواہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی حیثیت کا مالک ہو، اسے تباہ نہیں کر سکتا، لوگ آتے جاتے رہیں گے، لیکن مسلم لیگ ہمیشہ زندہ رہے گی۔

    قائداعظم نے موہن داس گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آخر مسٹر گاندھی دیانت داری کے ساتھ یہ اعتراف کیوں نہیں کر لیتے کہ کانگریس ہندوؤں کی جماعت ہے اور سوائے ہندوؤں کی ٹھوس اکثریت کے اور کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کرتے؟ مسٹر گاندھی آخر یہ کہنے میں فخر محسوس کیوں نہیں کرتے کہ وہ ایک ہندو ہیں اور کانگریس کو ہندوؤں کی حمایت حاصل ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر یہ سارا فریب اور ڈھونگ آخر کیوں رچایا جا رہا ہے۔

    یہ سب سازشیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے یہ ہتھکنڈے کیوں اختیار کیے جا رہے ہیں؟ عدم تعاون کے اعلان کی ضرورت کیا ہے؟ سول نافرمانی کی دھمکیاں کیوں دی جا رہی ہیں؟ اور محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ مسلمان متفق ہیں یا نہیں۔ آئین ساز اسمبلی کے لیے جنگ کیوں لڑی جا رہی ہے؟ وہ ایک ہندو لیڈر کی حیثیت سے فخر کے ساتھ اپنی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے سامنے کیوں نہیں اور مجھ سے مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے ملاقات کیوں نہیں کرتے، جس پر میں فخر محسوس کرتا ہوں؟

    مسلمان ایک قوم ہیں اور قوم کی کوئی بھی تعریف کی جائے وہ اس پر پورے اترتے ہیں۔ مسلمان ہر گز ایک اقلیت نہیں ہیں، ہندوستان کے برطانوی نقشوں کے مطابق بھی ہم اس ملک کے وسیع وعریض رقبوں پر آباد ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مثلاً بنگال، پنجاب، شمالی مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان۔ برطانیہ کے مصنوعی قوانین کے ذریعے جبراً اکٹھا رکھ کر یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کبھی ایک قوم بھی بن جائیں گے۔

    ہندوستان کی وحدانی حکومت جو چیز ڈیڑھ سو برس میں حاصل نہ کر سکی، اسے ایک وفاقی مرکزی حکومت مسلط کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرح قائم ہونے والی کوئی حکومت ملک بھر کی مختلف قوموں سے اپنے لیے طاقت کے سوا کبھی برضا ورغبت بھی ان کا اعتماد اور وفاداری حاصل کر سکے گی۔

    اگر برطانوی حکومت حقیقتاً اس برصغیر کے لوگوں کے لیے سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ امن وامان اور مسرت وشادمانی کی خواہاں ہے، تو ہم سب کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ ہندوستان کو خودمختار قومی مملکتوں میں تقسیم کر دیا جائے اور بڑی قوموں کو الگ الگ وطن دے دیے جائیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ مملکتیں ایک دوسرے کی حریف ہوں، بلکہ اس کے برعکس ان کے درمیان رقابت اور ایک دوسری پر سماجی تسلط اور سیاسی برتری حاصل کرنے کی جبلی خواہش اور کوششیں ختم ہو جائیں گی اور قدرتی طور پر باہم بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے ایک دوسرے کی خیر سگالی کی طرف پیش رفت کریں گی اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ مکمل امن وآشتی سے رہیں گی۔ اس سے یہ بھی ہوگا کہ وہ مسلم ہندوستان اور ہندوستان کے درمیان اقلیتوں کے مسائل کو دوستانہ طریقے اور زیادہ آسانی سے طے کر سکیں گی اور اس طرح مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ زیادہ بہتر طریقے سے کیا جا سکے گا۔

    مسلم ہندوستان کسی ایسے آئین کو تسلیم نہیں کر سکتا، جس کے نتیجے میں لازماً ہندو اکثریت کی حکومت قائم ہو۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک جمہوری نظام کے تحت جو اقلیتوں پر جبراً مسلط کیا گیا ہو یک جا رکھنے کا مطلب صرف ’ہندو راج‘ ہے۔ پچھلے ڈھائی برس کے دوران صوبوں میں آئین پر عمل درآمد کے دوران ہمیں خوب خوب تجربے ہوئے ہیں اور اگر اس قسم کی حکومت پھر قائم ہوئی، تو یقیناً خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور نجی لشکر تیار کیے جانے لگیں گے، جیسا کہ مسٹر گاندھی نے سکھر کے ہندوؤں سے کہا تھا کہ انھیں اپنا دفاع خود کرنا چاہیے، خواہ طاقت کے ذریعے یا بغیر طاقت کے، مُکّے جواب میں مُکّے کے ذریعے اور اگر وہ اپنا تحفظ نہیں کرسکتے تو انھیں اپنا وطن ترک کر دینا چاہیے۔ ‘‘

    اجلاس میں شریک چند دیگر مسلم لیگی راہ نما:

    مسلم لیگ کے اس تاریخ ساز اجلاس میں قائداعظم، لیاقت علی خان، مولوی فضل الحق، سر سکندر حیات، آئی آئی چندریگر، سر عبداللہ ہارون، بہادر یار جنگ، سردار اورنگ زیب خان (سرحد)، نواب محمد اسمعیل، عبدالحمید خان (مدراس) اور سید عبدالرؤف شاہ (سی پی) وغیرہ کے علاوہ چند دیگر نمایاں شخصیات نے بھی شرکت کی، جن کا مختصر تعارف کچھ اس طرح ہے۔

    چوہدری خلیق الزماں

    ’قراردادِ لاہور‘ کی سب سے پہلے تائید چوہدری خلیق الزماں نے کی، آپ 25 دسمبر 1889ء کو ضلع مرزا پور، یوپی میں پیدا ہوئے۔ ایم ایچ اصفہانی ایک جگہ لکھا تھا کہ ابوالکلام آزاد کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کیا ہے، چوہدری خلیق الزماں اور پنڈت جواہر لال نہرو سے جھگڑا ہوگیا، جناح صاحب نے اس سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان بن گیا۔‘‘ اس سے کانگریس کے مسلمان راہ نماؤں میں چوہدری خلیق الزماں کا نقطہ نظر بھی معلوم چلتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد چوہدری خلیق الزماں مختلف سیاسی سرگرمیوں کا بھی حصہ رہے اور 18 مئی 1973ء کو 84 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

    نواب سر شاہ نواز ممدوٹ

    اس جلسے کے میزبانوں میں شمار ہونے والے نواب سرشاہ نواز ممدوٹ شروع ہی سے مسلم لیگ کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے، لیکن ان کے تعلقات یونینسٹ پارٹی میں سر فضل حسین اور سر سکندر حیات خاں سے بھی تھے۔ وہ انھیں مسلم لیگ کی جانب راغب بھی کرتے تھے۔ سر فضل حسین کے انتقال کے بعد سر سکندر ’یونینسٹ پارٹی‘ کے سربراہ بنے۔ دوسری طرف نواب سر شاہ نواز ممدوٹ نے 1936ء کے بعد بہ تدریج انھیں مسلم لیگ کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد ازاں لاہور اجلاس کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا انتقال 8 مارچ 1942ء کو ہوا۔

    بیگم مولانا محمد علی جوہر

    بیگم مولانا محمد علی جوہر، جن کا نام امجدی بانو تھا، تحریک پاکستان کی ایک نمایاں خاتون تھیں، 1902ء میں 17 برس کی عمر میں ان کی شادی مولانا محمد علی جوہر سے ہوئی، جو ان دنوں آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھے۔ ان کا مولانا جوہر کی والدہ ’بی اماں‘ کے ساتھ مل کر ہندوستان کی سیاسی بیداری کے لیے خاصا بڑا کردار ہے۔

    وہ 1917ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک ہوئیں، 1920ء میں آل انڈیا خلافت خواتین کمیٹی کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ 29 نومبر1921ء کے ’ینگ انڈیا‘ میں گاندھی جی نے امجدی بیگم کے لیے ’ایک بہادر خاتون‘ کے عنوان سے خصوصی طور پر لکھا اور کہا کہ ’’میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں تقریر کا مَلکہ اپنے شوہر سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ وہ صحیح معنوں میں بہادر شوہر کی بہادر بیوی ہیں۔‘‘ قرارداد لاہور کے موقع پر وہ واحد خاتون مقررہ تھیں، انھوں نے ہی قرارداد لاہور کو ’قراردادِ پاکستان‘ کہا، جسے ہندو اخبارات نے خوب پروپیگنڈا کیا اور 1941 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ مدراس میں اسے باقاعدہ ’قرارداد پاکستان‘ ہی تسلیم کرلیا تھا۔ قیام پاکستان سے فقط چند ماہ قبل 28 مارچ 1947ء کو امجدی بیگم کا انتقال ہوگیا۔

    قاضی محمد عیسیٰ

    مارچ 1940ء کے اجلاس میں شریک قاضی محمد عیسیٰ بلوچستان میں ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے 1938ء میں انھیں وہاں مسلم لیگ قائم کرنے کی ہدایت کی تھی اور بہت کم وقت میں وہاں مسلم لیگ کو ایک فعال اور بھرپور تنظیم بنا دیا تھا۔

    عبدالحامد بدایونی

    آپ 1898ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1937ء کے لکھنؤ اجلاس میں عملی طور پر حصہ لیا۔ انھوں نے 1946ء میں یوپی، سی پی، بہار، اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، کراچی، سندھ، بلوچستان، کوئٹہ، قلات اور پنجاب کے دور افتادہ علاقوں میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔

    صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا، اس میں نواب بہادر یار جنگ اور مولانا عبدالحامد بدایونی شامل تھے۔ انھوں نے اپنے زور خطابت سے ڈاکٹر خان اور خان عبدالغفار خان کے الزامات کا جواب دیا۔ آپ ’ٹوپی‘ (خیبر پختونخوا) میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کا حصہ رہے اور 23 مارچ کے تاریخ ساز اجلاس میں بھی شامل ہوئے۔

    مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کا مسئلہ

    کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کے ’خطبہ الہ آباد‘ کی طرح ’قراردادِ لاہور‘ میں بھی صرف ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں ہی کی بات کی گئی، لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو پاکستان کا حصہ بننے والے پانچ صوبوں کے مقابلے میں چھے مسلم اقلیتی صوبوں کے مندوبین بھی اس موقع پر شانہ بہ شانہ تھے۔

    بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قاضی محمد عیسیٰ نے ہندوستان کے مسلمان اقلیتی صوبوں کے حوالے سے کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ’’جب اکثریتی صوبوں کے مسلمان آزادی وخود مختاری حاصل کر لیں گے تو ان صوبوں کے مسلمانوں کو جو اقلیت میں ہیں۔ کبھی فراموش نہیں کریں گے اور ان کے اختیار میں جو کچھ بھی ہوگا ، اس سے ان کی مدد کریں گے۔

    صوبہ سرحد کے مسلمانوں کی طرح بلوچستان کے مسلمان بھی ہندوستان کے دربان ہیں۔ اس لیے کہ وہ درہ بولان پر پہرہ دیتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں، اس لیے ہم پر فرض ہوگا کہ ہم بطور دربان اپنے ان مسلمان بھائیوں کی پوری پوری حفاظت کریں، جو ہندوستان کے ہندو اکثریتی صوبوں میں بطور اقلیت رہ جائیں گے۔‘‘

    صوبہ ’سی پی‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے سید عبدالرئوف شاہ نے کہا ’’میں ایک ایسے صوبے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں مسلمان چند فی صد ہیں اور کانگریس کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں، اس کے باوجود مسلمانوں نے صبر سے کام لیا ہے۔

    مجھے علم ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہمیں ہندوئوں کی حکومت کے ماتحت رہنا ہوگا، مگر ہم پاکستان کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمارے بھائی تو آزادی کی نعمت سے بہرہ وَر ہوں گے اور پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہوگا، میں اپنے ہم مذہبوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اقلیتی صوبوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے پریشان نہ ہوں، ہمیں اپنے خدا پر بھروسا اور اعتماد ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے جب مسلم اکثریتی صوبوں میں اپنے بھائیوں کی طرح ہم بھی آزاد ہو جائیں گے۔‘‘

    اسی طرح صوبہ ’بِہار‘ سے تعلق رکھنے والے نواب محمد اسمعیل نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’میں ایک ایسے صوبے کا باشندہ ہوں، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور جہاں مسلمانوں کو آزادیٔ تقریر تک حاصل نہیں، مگر یہ شان دار اجلاس ایسی سرزمین پر ہو رہا ہے، جو آزاد سرزمین ہے، اس لیے میں بہت خوش ہوں کہ مجھے آزادانہ تقریر کی مسرت حاصل ہو رہی ہے۔

    میں مسلم اکثریت والے صوبوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے یہ پیش کش کی ہے کہ مسلم اقلیت کے صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق پامال کیے گئے، تو ہم آپ کی مدد کو حاضر ہیں۔ میں آپ کا بے حد ممون ہوں، لیکن مجھے اپنے صوبے کے مسلمانوں اور ان کی قابلیت پر پورا بھروسا ہے، اگر ایسی کوئی ضرورت کسی وقت لاحق ہوئی تو وہ اپنی مدافعت آپ کرلیں گے۔‘‘

    ’سرحد‘ (خیبر پختونخوا) کی نمائندگی کرتے ہوئے عبدالحمید خان نے کہا ’’گیارہ میں سے سات صوبوں میں ڈھائی سالہ کانگریسی حکومت کے دوران کانگریسی رویے کے پیش نظر اشتراک عمل کی ساری توقعات غلط ثابت ہوئیں۔ اس رویے کے سبب ان صوبوں کے مسلمانوں میں ایک بیداری پھیل گئی اور مسلم لیگ تقریباً ہر صوبے میں منظم ہوگئی۔ جب مسلم لیگ نیا دستور مرتب کرے گی تو اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے پوری طرح صلاح و مشورہ کرے گی۔‘‘

    23 مارچ۔۔۔ ہمارا ’مرحوم‘ یوم جمہوریہ۔۔۔!

    پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ کی ایک اور اہمیت ’یوم جمہوریہ‘ کی بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اس اہم دن کو فراموش کر دیا۔ یہ وہ دن تھا کہ جب مملکت خداداد پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا دستور نافذ کیا تھا اور بلاشبہ یہ 1947ء میں حاصل کی گئی آزادی کی تکمیل کی جانب ایک اہم قدم تھا اور ہمارا ملک باضابطہ طور پر ملکۂ برطانیہ کے رسمی ضابطوں اور اثر رسوخ سے بھی آزاد ہوا۔ ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ہندوستان نے یہ منزل 1950ء ہی میں پالی اور وہاں آج بھی ’30 جنوری‘ کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    ہمارے اس عمل میں طوائف الملوکی کے سبب نہ صرف غیر معمولی تاخیر ہوئی، بلکہ شاید اس ’قومی دن‘ کو تیسرا برس دیکھنا بھی نصیب نہ ہوسکا اور 7 اکتوبر 1958ء کو نو برس کے صبر آزما انتظار کے بعد تیار ہونے والا دستور پہلے ہی صدر مملکت قرار پانے والے اسکندر مرزا کے ہاتھوں منسوخ ہوا اور پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا۔ پھر تو شاید پلٹ کر کسی کو ’یوم جمہوریہ‘ کی خبر لینے کی زحمت تک نہ ہوئی یا شاید اس دن کو پھر صرف ’قراردادِ لاہور‘ کی مناسبت ہی سے اس قدر اجاگر کردیا گیا کہ اس کی دوسری تاریخی اہمیت بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی۔

    ’مسئلہ فلسطین‘ کی بازگشت!

    یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ مارچ 1940ء کے اس تاریخ ساز اجلاس میں ایک طرف جہاں مسلمانانِ برصغیر کے واسطے ایک سنگ میل طے ہوا، وہیں یہاں ’مسئلہ فلسطین‘ کی بازگشت بھی سنائی دی گئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب سرزمین عرب کے درمیان اسرائیل کے قیام کی کوششیں جاری تھیں۔ قائداعظم نے اعلان کیا کہ عبدالرحمن صدیقی مصر میں فلسطین کانفرنس میں شرکت کر کے لوٹے ہیں، وہ فلسطین کے بارے میں قرار داد پیش کریں گے، چناں چہ فلسطین کے لیے بھی ایک قرار داد پیش کی گئی، سید رضا علی اور مولانا عبدالحامد بدایونی نے اس قرار داد کی تائید کی۔

    قائداعظم نے کہا ’’ہمیں بتایا گیا کہ عربوں کے جائز قومی مطالبات کو پورا کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن ہم محض مخلصانہ کوششوں سے مطمئن نہیں ہو سکتے، ہم چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت واقعتاً اور حقیقی معنوں میں فلسطینی عربوں کے مطالبات پورے کرے۔‘‘ آج ہم ’یوم پاکستان‘ منا رہے ہیں، تو ایک بار پھر ’فلسطینی مسلمان‘ اسرائیلی بربریت کے شکار بنے ہوئے ہیں اور پاکستان سمیت کوئی بھی مسلمان ملک ان کی داد رسی کے لیے آگے آنے کو تیار نہیں ہے!