خطبۂ استقبالِ رمضان المبارک – ایکسپریس اردو

    رمضان المبارک کی آمد ہے، جس کے استقبال کے لیے آپ اور ہم سب تیار ہیں، دلی اضطرابی کیفیت کے ساتھ اُمنگوں اور خواہشات کے درمیان رب العالمین کی رحمت کے منتظر بھی ہیں۔

    آج ہم رسول اﷲ ﷺ کا وہ عظیم الشان خطبہ جو آپ ﷺ نے استقبالِ رمضان کے لیے صحابہ کرامؓ کو ارشاد فرمایا اور قیامت تک تمام مومنین کے لیے دستور کی صورت میں پیش فرما دیا۔ روزہ پورا ایک نصاب ہے۔ لیکن اِس سے پیشتر اﷲ رب العالمین کا یہ حکم ملاحظہ فرمائیے، مفہوم:

    ’’اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو۔‘‘ (البقرہ)

    اﷲ جل شانہٗ روزے کی حقیقت، تقوے اور پرہیزگاری کی صورت میں ظاہر فرما رہا ہے۔ سابقہ تمام اَدیان میں روزہ معروف رہا ہے، قدیم مصری تہذیب، یونانی، رومن اور ہندومت میں روزہ رکھا جاتا تھا اور اب بھی رکھا جاتا ہے۔ یہودی یروشلم کی تباہی کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ہفتہ کے دن روزہ رکھتے ہیں۔

    ترتیب کے اعتبار سے پہلے نماز، پھر زکوٰۃ اور پھر روزہ فرض کیا گیا۔ روزے کی فرضیت کے وقت رسول اﷲ ﷺ نے ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا، حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اس ماہ مبارک کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے افضل ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (نمازِ تراویح) کو نفل عبادت قرار دیا ہے۔

    جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اُس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنّت یا نفل) ادا کرے گا، تو اس کو دوسرے مہینے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے، یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

    جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب کی نیت سے) روزہ افطار کرایا، تو یہ عمل اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا (تو غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے)

    آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا، جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلائے، اﷲ تعالیٰ اُسے میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اُس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنّم سے آزادی ہے۔ جو شخص اس ماہ میں اپنے خادم سے کام لینے میں تخفیف اور کمی کرے گا، اﷲ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرما کر اُسے دوزخ سے رہائی عطا فرمائے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)

    اﷲ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادی و سفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا، جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔

    روزے کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں موجود مادی و سفلی تقاضوں اور بہیمی و حیوانی قوت کو قابو رکھنے کا نسخہ بتایا۔ جو انسان کو توازن و اعتدال میں رکھ کر اﷲ کا مُقرب بناتا ہے۔ اِس خطبہ میں رسول اﷲ ﷺ نے رمضان المبارک کی عظمت و رَفعت کو بیان فرمانے کے بعد اَعمالِ صالحہ کی ترغیب فرمائی، اُن اَعمال پر اَجر کی ترتیب مُقرر فرما کر اُسے دَوَام بخشا۔ معمولی اور نفلی نیکیوں کا اجر عام مہینوں کے فرضوں کے برابر رکھا اور فرضوں کے اجر کو ستّر گُنا بڑھا دیا۔

    حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے (روزے کی فضیلت اور قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مومن کے ہر عمل کا ثواب (اس کی کیفیت، حقیقت اور معیار کے مطابق) دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کر کے دیا جاتا ہے، (یعنی باقی سب عبادات کے لیے سنتِ الٰہی یہی ہے) مگر ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ روزہ عطاء اجر کے اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، کیوں کہ روزہ صرف اور صرف میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا۔

    کیوں کہ وہ اپنی خواہشِ نفس اور طعام کو صرف میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں، مسرت کا ایک لمحہ تو اسے افطار کے وقت نصیب ہوتا ہے اور روحانی مسرت کا نقطۂ عروج اس وقت ہوگا جب آخرت میں اسے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے حضور شرفِ باریابی نصیب ہوگا، اور روزہ دار کے منہ کی بُو اﷲ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

    اگر ہم نے اپنے روزوں کو محض بھوک اور پیاس کی مَشقَّت تک محدود رکھا، ان کی روح کونہ سمجھا، روحِ صوم پر عمل نہ کیا اور نہ اسے اپنے اوپر طاری کیا، حقیقت صوم کو بھول کر محض صورت کو اپنا لیا تو ایسے روزے داروں کے لیے فرمانِ رسول ﷺ ہے، مفہوم: ’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں، جنہیں ان کے روزے سے بھوک (پیاس ) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قائم اللّیل ایسے ہیں، جنہیں رات کے قیام سے شب سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

    صحابۂ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ شعبان المعظم میں اپنے تمام دنیوی اُمور نمٹا لیا کرتے اور رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی خود کو رضائے الٰہی کے لیے نیکیوں میں مصروف کرلیتے۔ اگرچہ آج بھی لوگ کثرت سے نیک اَعمال انجام دیتے ہیں، لیکن اُن اَعمال میں اصلاح کی ضرورت اور گنجائش ابھی باقی ہے۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کو دیتے وقت یہ احتیاط رکھنا ضروری ہے، کہ وہ صحیح ہاتھوں تک پہنچ رہا ہے۔

    حدیثِ پاک میں روزہ دار کو افطار کرانے کے اجر و ثواب کو بیان فرمایا گیا ہے، آج کل فیشن بن گیا ہے کہ اکثر فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ رَوِش یوں بھی اَخلاقی طور پر درست نہیں کہ آپ لوگوں کے اندر سے خودداری ختم کرکے اُنہیں بھکاری بنا رہے ہیں۔

    یہی رقم آپ اُن ضرورت مندوں تک جو سفید پوش بھی ہیں اور اپنی ضرورتوں کے لیے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز بھی نہیں کرتے، اﷲ تعالیٰ نے بھی اُن کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے، مفہوم: ’’(خیرات) اُن فقراء کا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث زمین میں چل پھر نہیں سکتے، اُس کے (زہداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان انہیں مال دار سمجھے ہوئے ہے، تم اُنہیں اُن کی صورت سے پہچان لوگے، وہ لوگوں سے بالکل سوال نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، تم جو مال بھی خرچ کرو، تو بے شک! اﷲ اُسے خوب جانتا ہے۔‘‘ (البقرہ)

    مختلف شعبوں سے وابستہ مالکان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں مراعات دیں، اُن کے لیے افطار و سحری کا اہتمام کریں، راشن وغیرہ کی تقسیم سڑکوں، فٹ پاتھوں پر کرنے کے بہ جائے اپنے مستحق ملازمین کو دیں، تاکہ اُن کی ضروریات پوری ہوں اور وہ مالک کے ساتھ اَخلاص اور وفاداری نبھائیں۔

    یہی حال زکوٰۃ کی تقسیم کا ہے، اسلام نے تو پہلا حق اُن رشتے داروں کا بیان کیا جو محتاج اور مسکین ہیں، اُنہیں دینے کا دُہرا ثواب ہے، جب کہ ہمارے یہاں کچھ سیٹھ صاحبان نمود و نمائش کی خاطر زکوٰۃ کی مَد میں راشن تقسیم کرتے ہیں، یہ نظام شفاف نظر نہیں آتا، آپ دیکھیں گے کہ اُن لائنوں میں پیشہ وَر بھکاری ہی نظر آتے ہیں، کوئی مُعزز یا سفید پوش آدمی نظر نہیں آتا، اِس نظام میں اِصلاح کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سالوں میں راشن تقسیم کرتے ہوئے بھگڈر کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں قابلِ توجہ اور لمحۂ فکریہ ہیں۔

    یاد رکھیے! بعض مقام بعض ساعات حرمت والی ہوتی ہیں، گناہ تو گناہ ہے، گھر میں ہو تب بھی، مسجد میں ہو تب بھی، لیکن ایک فرق ہے کہ اگر آپ مسجد میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولیں تو آپ نے دو گناہ کیے، ایک جھوٹ بولنے کا اور دوسرا مسجد کی حرمت اور اُس کے تقدُّس کو ماپال کرنے کا۔ مارکیٹ میں جھوٹ بولا تو کسی مُقدّس مقام کی بے حرمتی نہیں کی لیکن جھوٹ کا گناہ ملے گا۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ اﷲ اُس شخص سے ناراض ہوتا ہے جو قبرستان میں قہقہہ لگائے۔ قہقہہ لگانا ویسے بھی اچھی بات نہیں دوستوں کی محفل میں، کسی بیٹھک میں قہقہہ لگایا، الگ بات ہے۔

    مسجد کی باجماعت نماز اور گھر کی نماز کے ثواب میں بڑا فرق ہے۔ اِسی طرح خطبہ کی حدیث میں بیان فرمایا، مفہوم: جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اُس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے مہینے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا ۔ یعنی رمضان المبارک میں نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ اِس مہینے کا استقبال یہی ہے کہ ہم غور کریں کہ وہ گناہ جن میں ہم سارا سال مبتلا رہے ، رمضان المبارک میں ہم اُن گناہوں کا اعادہ نہ کریں۔

    کیا وجہ ہے کہ ہم پورے ماہ کے روزے رکھنے کے باوجود بھی اَخلاقی اَقدار کی پاکیزگی اور بلندی کے حامل نہیں ہوتے بل کہ صفاتِ رذیلہ، حرص و طمع اور دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔

    گھر، بازار، دفاتر، سڑکوں اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر صبر، برداشت، حوصلہ و ہمت سے عاری، معمولی بات پر جھگڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ ایسے روزے اور ایسے روزے دار اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے جھوٹی بات کو نہیں چھوڑا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے کو نہیں چھوڑا اور جہل (کے تقاضے پر عمل کرنے) کو نہیں چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

    ہماری معاشرتی پستی کا یہ عالم ہے کہ اِس مہینے میں اکثر تاجر اور دکان دار اشیاء خور و نوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں، ہر طرف لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی اور گرانی کا سماں نظر آتا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کی یہی سوچ نظر آتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روپے کمانا ہے، نیکیاں کمانے کی فکر اکثر کو نہیں ہوتی، یہ سوچ اتنی عام ہوچکی ہے کہ دینی مزاج کے حامل افراد بھی اِسی رَوِش پر چلتے نظر آتے ہیں۔

    جب کہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب کسی غیر مسلم کمیونٹی کا مذہبی تہوار آتا ہے تو غیر مسلم کمیونٹی کے لوگ اپنے ہم مذہبوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور سستی اشیاء فراہم کرتے ہیں۔ اس موقع پر کمیونٹی کے خصوصی سیل اسٹال لگتے ہیں، جہاں کم قیمتوں پر خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ کیا مسلم کمیونٹی ہی دنیا کی دولت کے پیچھے اندھی ہے، یادرکھیے! رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: ’’دنیا مردار کی مانند ہے اور اس کا طالب کتّا ہے۔‘‘

    اِس مہینے کو غم خواری کا مہینہ بنا کر معاشرے کے پس ماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کو ڈھارس و ہمت بندھائی کہ غم نہ کرو۔ روزے کی فرضیت کا دوسرا بنیادی مقصد معاشرے کے متمول اور کثیرالمال طبقے کو یہ احساس دلانا ہے کہ تمہارے اطراف تمہارے وہ بھائی بھی ہیں جو تمہاری توجہ کے منتظر ہیں۔

    اُن کی آزمائش کے ساتھ تمہاری آزمائش کا مرحلہ بھی ہے کہ تم ہمارے ہی دیے ہوئے مال سے کس قدر ہماری راہ میں خرچ کرتے ہو۔ بھوک و اَفلاس دنیاوی عارضی کیفیات ہیں، لیکن حدیث پاک میں مُفلس کی تعریف یوں فرمائی، حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے (صحابہ کرامؓ سے) دریافت فرمایا: ’’جانتے ہو! مفلس کسے کہتے ہیں؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! جس کے پاس درہم یا مال و دولت نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے، جسے روزِ قیامت (اِس حال میں) لایا جائے گا کہ اُس کے (نامۂ اعمال میں) نماز، روزے بھی ہوں گے اور زکوٰۃ کی ادائی کا ثواب بھی درج ہوگا، لیکن اُس نے مخلوق پر ظلم و زیادتی کی ہوگی۔

    کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال ہڑپ لیا ہوگا، کسی کا (ناحق) خون بہایا ہوگا، پس اُس کی یہ نیکیاں اُس سے لے کر متاثرہ شخص کو دے دی جائیں گی، جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو اُس شخص کے گناہ اِس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اِس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی)

    نماز، زکوٰۃ ، روزے، حج اور دیگر تمام عبادات اﷲ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہیں، لیکن اِن کی صحت و درستی کی بنیاد پر اُخروی معاملات کا مَدَار ہے، ہمیں اپنے ہر عمل کا محاسبہ کرنا ہوگا، ایسا نہ ہوکہ ہم اپنی غفلت و کوتاہی کے سبب اُخروی مُفلسین کی صف میں شامل ہوچکے ہوں، جس کا ہمیں احساس بھی نہیں اور بعد میں اِس کے تدارک کی کوئی سبیل بھی باقی نہ رہے۔