بدترین ظلم کے اثرات سے لڑتے ریڈانڈین

     1492ء میں کرسٹوفر کولمبس نے براعظم امریکا دریافت کیا اور اہل یورپ اس ’’نئی دنیا‘‘ کے امکانات اور وسائل سے مستفید ہونے گروہ درگروہ اس طرف عازم سفر ہوئے۔

    یہ براعظم آنے والوں کے لیے ترقی اور معاشی مواقعوں سے متعلق امیدوں کا مرکز بن گیا مگر یہاں پہلے سے آباد مقامی باشندوں پر اس یلغار سے کیا گزری اس کی داستان بیان کرے کے لیے بھی آج ان کی بہت ہی تھوڑی سی تعداد باقی رہ گئی ہے۔

    بے شمار امریکی اور یورپی افراد جو آج ماحولیات کی بقا اور جانوروں تک کی معدوم ہوتی نسلوں کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنے میں سب سے آگے ہیں اس سچائی پر سرشار ہیں کہ ان کے دادا اور پرداداؤں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نام سے جس سپر پاور کی بنیاد رکھی تھی۔

    اس کی بہت سی ریاستوں کے نام آج بھی ریڈ انڈین قبائل کے نام پر ہیں، مگر آبادکاروں کے ظلم و جبر کی وجہ سے خود وہ قبائل صفحہ ہستی سے ہی مٹ چکے ہیں۔ ریاست الاباما، مشی گن ، میسا چوسٹس، ارکنساس، ہوائی، الاسکا اس کی چند سرسری سی مثالیں ہیں۔

    نیویارک کے عظیم شہر میں واقع ٹائمز اسکوائر، مین ہیٹن نام کے جس مہنگے ترین علاقے میں واقع ہے اگر وہاں چند منٹ بھی کھڑے ہوجائیں تو اس پرہجوم مقام پر دنیا کی بیشتر قومیتوں کے افراد سے سامنا ہوجاتا ہے مگر جس مقامی ریڈ انڈین قبیلے کی ملکیت یہ پورا علاقہ تھا وہ نسل کشی کا شکار ہوکر صرف تاریخ کے صفحات پر ہی زندہ رہ گیا ہے۔

    دورجدید میں جہاں شمالی امریکا دنیا بھر کے افراد کے خوابوں کی سرزمین سمجھا جاتا ہے وہیں۔ گذشتہ چند صدیاں یہاں کے مقامی افراد کی ایک بھیانک خواب کی طرح گزری ہیں۔ مختلف اندازوں کے مجموعی اوسط کے مطابق کولمبس کی آمد کے وقت اس براعظم کی مقامی آبادی 55 سے 66 ملین کے قریب تھی۔

    یہ افراد قبائل کی صورت میں آباد تھے۔ سادہ طرززندگی، فطرت سے محبت اور باہمی تعاون کے تحت زندگی گزارنے والے یہ افراد کب اور کیسے اس خطۂ زمین پر آباد ہوئے، اس کے بارے میں مختلف روایات ملتیں ہیں۔ ایک نسبتاً قابل قبول روایت کے مطابق زمانۂ قدیم میں سائبیریا اور الاسکا کے درمیان ایک برفانی ٹکڑا کرۂ ارض کے ان دو خطوں کے درمیان پل کا کام کرتا تھا اور اس طرح مختلف قبائل کی نقل و حرکت اور آمدورفت ایک سے دوسری جگہ جاری و ساری رہتی تھی۔ بعد ازآں موسمی تغیرات کے باعث یہ برفانی پل پگھل گیا یا سمندر میں ڈوب گیا اور براعظم امریکا باقی دنیا سے الگ تھلگ ہوتا چلاگیا۔

    اس طرح یہاں کی مقامی آبادی بیرونی حملوں سے محفوظ ہونے کی وجہ سے فنون جنگ سے بھی نابلد رہ گئی اور سفید فام یلغار کا مقابلہ نہ کرسکی۔ اہل یورپ اس نئی دنیا کے وسائل اور زمینوں پر قبضہ کرکے اپنی بستیاں بسانے کے لیے اتنے پرعزم تھے کہ کسی قسم کی رکاوٹ یا اخلاقیات کو زیرغور لانے پر تیار ہی نہیں تھے اور ظلم، دھوکادہی، عیاری، قتل و غارت یا کم از کم مقامی قبائل کی اپنی زمینوں سے بے دخلی سفید فام آباد کاروں کے عام چلن تھے۔

    اس نئے براعظم سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیے بعض اوقات ہسپانوی، برطانوی، فرانسیسی اور پرتگالی آبادکار آپس میں بھی الجھ جایا کرتے تھے۔ تاہم شمالی براعظم کے بڑے حصے پر بالآخر تاج برطانیہ قابض ہوگیا۔ بعدازآں 1776ء میں امریکی جنگ آزادی کے نتیجے میں موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی شکل میں ایک نیا ملک وجود میں آگیا اور برطانوی راج کا بھی خاتمہ ہوا۔ مگر برطانوی اور فرانسیسی راج ہوکہ سفید فام امریکی حکومت، مقامی ریڈ انڈین افراد کی زندگی اب سے کچھ دہائیوں پہلے تک بھی ظلم اور استحصال کا شکار ہی رہی۔

    دراصل یورپی آبادکار ہی اس خطے کے مقامی افراد کے لیے ایک قہر نہیں تھے بلکہ ان کی آمد کے ساتھ ہی چیچک، خسرہ اور فلو کے جراثیم کی بھی یہاں آمد ہوئی اور چوںکہ ریڈانڈین افراد کے جسموں میں ان بیماریوں کے خلاف کسی قسم کی مدافعت موجود ہی نہیں تھی، اس لیے ان کے لیے یہ امراض دوسری اقوام سے بڑھ کر جان لیوا ثابت ہوئے اور ان کی پچاس فی صد سے زیادہ آبادی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اپنی انسانیت سوز حرکتوں پر شرمندہ بعض سفید فام مورخین اکثر یہ جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریڈانڈین قبائل کی آبادی گھٹنے کی وجہ آبادکاروں کا ظلم وستم اور قتل و غارت نہیں بلکہ ان مہک بیماریوں کا حملہ ہی تھا۔ ظاہر ہے یہ استدلال پورے طور پر صحیح نہیں مگر ان قبائل کی آبادی میں تنزلی کا ایک سبب ضرور ہے۔

    براعظم امریکا کی دریافت کے وقت موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں مقامی ریڈانڈین افراد کی تعداد ایک ملین سے زیادہ تھی۔ تاہم 1900ء تک یہ افراد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہی رہ گئے۔ جان لیوا بیماریوں کے علاوہ دوسرے عوامل جو ان کی تعداد گھٹنے کا سبب بنے ان میں نامساعد حالات میں اپنے سرسبزوشاداب علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے بنجر اور برفانی علاقوں کی طرف ہجرتیں بھی شامل ہیں۔

    سخت موسموں میں ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کے دوران اکثر قبائل کے آدھے سے بھی زیادہ افراد بھوک، پیاس اور بیماریوں کی وجہ سے چل بستے اور جو چند لوگ مختص کردہ نئے علاقوں تک پہنچ بھی جاتے وہ بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی بے سود کوششوں کے بعد فاقہ کشی اور ذہنی امراض کے ہاتھوں ہمت اور زندگی دونوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے۔ تاریخی ریکارڈز سے پتا چلتا ہے کہ جہاں کہیں شکست خوردہ ریڈانڈین قبائل کو زبردستی ہجرت کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکا وہاں کھلے عام قتل و غارت گری کی گئی اور اس وسیع وعریض براعظم میں انسانوں کے اس گروہ پر اﷲ کی زمین کو اس قدر تنگ کردیاگیا کہ بعدازآں ان کی بچی کچی تعداد نے مختلف حکومتی معاہدوں کے تحت اپنے لیے مختص کردہ علاقوں میں سکونت اختیار کرنے میں عافیت سمجھی، جنہیں Indian Reservations کہا جاتا ہے اور آج کے دور میں یہاں رہائش پذیر افراد نہ حکومت کو کسی قسم کا ٹیکس دینے کے پابند ہیں نہ ہی حکومت ان کی کسی بھی قسم کی فلاح و بہبود یا تحفظ کی ذمے دار ہے۔ ساتھ ہی انہیں شراب اور جوئے کے اڈے چلانے کی کھلی چھٹی ہے جو ان کی پس ماندگی اور بلند شرح بے روزگاری کی بڑی وجہ ہے۔

    ماہرین نفسیات ریڈ انڈین نسل کے افراد میں مختلف ذہنی امراض کے بلند اعدادوشمار کی وجہ گذشتہ کئی نسلوں سے جاری استحصال، اپنی ثقافت اور مادری زبان سے محرومی اور ان علاقوں سے بے دخلی کو قرار دیتے ہیں جو صدیوں تک ہر قبیلے کی پہچان اور اس کے مقدس مذہبی رسم و رواج کا مرکز رہے ہیں۔ ان کے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے Generational Inauma Traumaکی متفقہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ سفید فام آباد کار جب اپنے غاصبانہ اور توسیع پسندانہ منصوبوں کو بڑی حد تک عملی جامہ پہنا چکے اور مقامی انڈینز کی تعداد قابل ذکر حد تک گھٹ گئی تو انہیں ان افراد کو کسی حد تک اپنانے یا یوں کہیے اپنے لیے کار آمد بنانے کا خیال آیا۔ چناںچہ اٹھارھویں سے بیسویں صدی تک بے شمار بورڈنگ اسکول قائم کیے گئے جنہیں امریکن انڈین بورڈنگ اسکول سسٹم کا نام دیاگیا۔ ان اسکولوں میں مقامی انڈین نسل کے بچوں کو والدین سے چھین کر حتیٰ کہ بعض اوقات اغوا کرکے داخل کروایا جاتا اور دن رات وہیں رکھ کر یورپی تہذیب، آداب اور زبان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش ہوتی۔ ان بچوں کے قبائلی نام بدل کر انگریزی نام رکھے جاتے اور انہیں اپنے رشتے داروں سے ملنے، اپنی قبائلی زبان بولنے اور اپنے مذہبی عقائد پر چلنے پر کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔

    اس نظام تعلیم کا بنیادی مقصد خود امریکی مورخین کے الفاظ میں یہی تھا کہ Kill the Indian, Save the Man یعنی ایسے انسانی پیکر تیار کرو جو صرف شکل میں مقامی ہوں مگر طرززندگی اور افکار میں یورپی اقوام کے ہم خیال ہوں۔ یقیناً اس نظام تعلیم نے تاریخ سے آشنا قارئین کو 1835ء کا لارڈ میکالے کا وہ تعلیمی منصوبہ یاد دلادیا ہوگا جو ہندوستانیوں کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم جس استبداد سے امریکا میں اس منصوبے کو مسلط کیاگیا اس کا حتمی نتیجہ بالاخر اسی Generational Inauma کی شکل میں نکلا جو مقامی انڈین باشندوں کا مقدر بن گیا ہے۔

    ان اسکولوں میں لائے گئے اکثر بچے منشیات کے عادی بن گئے یا خود کشی کرنے پر مجبور ہوئے اور اپنے منصوبے کے اس قدر بھیانک نتائج نے بالٓاخر خود سفید فام امریکی حکم رانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ چناںچہ 1970ء کے بعد قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے مقامی انڈین والدین کو بھی یہ حق دینا پڑا کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی مرضی کی تعلیم دلوا سکتے ہیں۔

    ساتھ ہی اسکولوں کے نصاب اور انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلی لاکر زیادہ سے زیادہ معاملات کو مقامی قبائل کے حوالے کیاگیا، جس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور پرانے نظام کے تحت قائم کیے گئے پیشتر اسکول بند ہوگئے اور نئے اسکولوں کا قیام ہوا، جن میں اکثر کو وفاقی حکومت سے مدد اور تعاون حاصل ہے اور اسکول میں داخل ہونے والے بچوں کو ان کی تہذیبی اقدار سے روشناس کیا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ جدید تعلیم کے مواقع بھی دئیے جاتے ہیں۔

    طویل عرصے تک ظلم و بربریت اور نسل کشی کا شکار ریڈ انڈین افراد نے مزاحمت اور بحالی ثقافت کی جو بھی کوششیں کی ہیں وہ ان کے پرامن مزاج کی مظہر ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نام چیف اسٹینڈنگ بیئر کا ہے، جو1829ء میں موجودہ دور کی ریاست نیبراسکا (Nebraska) کے ایک سرسبز اور زرخیز علاقے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پونکا قبیلے سے تھا، جو کاشت کاری، مچھلی کے شکار اور سردیوں میں جنگلی بھینسے کے شکار سے گزر بسر کیا کرتا تھا۔ تاہم 1854 میں کنساس نیبراسکا

    ایکٹ کے تحت اس قبیلے سے آبائی علاقے چھین کر مختص کردہ Reservation  تک محدود ہونے کے احکامات جاری ہوگئے، جہاں بنجر زمینوں پر کاشت کاری کی بے سود کوششوں کی وجہ سے یہ قبیلہ مستقل فاقہ کشی کا شکار ہوکر رہ گیا۔ حکومت کی طرف سے تمام عرصے میں کسی قسم کی مدد، تعاون، تعلیم یا خوراک نہیں بہم پہنچائی گئی۔

    البتہ سالہا سال کی مصیبتیں جھیلنے کے بعد 1865ء میں حکومت نے ایک نئے معاہدے کے تحت پونکا افراد کو اپنی مقدس آبائی زمینوں پر لوٹنے کی اجازت دے دی مگر صرف تین سال بعد وفاقی حکومت نے ایک اور قبیلے سے جنگ بندی کا معاہدہ کرکے امن پسند پونکا افراد کی زمین اس قبیلے کو دے دی اور پونکا قبیلے کو ایک اور سنگلاخ علاقے کی طرف ہجرت کا حکم ملا جسے ان کی نئی   Reservation یا اس زمانے کی اصطلاح میں Indian Territoryقرار دیا گیا تھا۔

    پونکا قبیلے کے لوگ چیف اسٹینڈنگ بیئر کی قیادت میں نئی منزل کی طرف روانہ ہوئے جو موجودہ دور کی ریاست اوکلاہاما میں واقع تھی۔ اس صعوبتوں بھرے سفر میں قبیلے کے بے شمار افراد لقمۂ اجل بنے جن میں چیف کا بیٹا بھی شامل تھا۔ چیف نے اپنے مرتے ہوئے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ اپنے عقائد کے مطابق اس کا جسدخاکی نیبراسکا میں آبائی زمین پر سپردخاک کریں گے۔ چناںچہ وہ اپنے تیس پیروکاروں کے ساتھ واپس نیبراسکا کی طرف پلٹ گئے۔

    تاہم جونہی حکومتی مشینری کو ان کی آمد کی خبر ہوئی احکامات کی خلاف ورزی کے ’’جرم‘‘ میں بریگیڈیئر بیئر جنرل جارج کروک کو انہیں گرفتار کرنے کا حکم ملا تاکہ فوری جلاوطن کردیا جائے ۔

    کہا جاتا ہے کہ جارج کروک کو چیف کے حالات جان کر ان سے ہم دردی ہوگئی اور اس نے انہیں جلاوطن کرنے کے بجائے کچھ عرصے اپنے پاس بظاہر قید کی حالت میں رہنے دیا تاکہ چیف اور ان کے ساتھی کچھ آرام پالیں اور ان کی صحت بھی بہتر ہوجائے۔ ساتھ ہی قانونی مدد حاصل کرنے میں بھی پونکا قبیلے کی مدد کی۔ کروک کی جان پہچان کے کچھ سفید فام وکلا مقامی انڈین افراد کے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے سرگرم تھے۔ وہ مفت قانونی مدد فراہم کرنے اور چیف اسٹینڈنگ بیئر اور پونکا قبیلے کی جلاوطنی کے خلاف مقدمہ لڑنے پر تیار ہوگئے۔

    وفاقی عدالت میں چیف کروک نے انہیں حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو معلوم ہوا کہ 1879ء تک امریکی آئین میں مقامی انڈینز کو انسان شمار ہی نہیں کیا جاتا تھا، جن کو قید یا حبس بے جا میں رکھنے کی ممانعت کی جاسکتی۔ تاہم دورانِ مقدمہ وفاقی عدالت کے جج نے چیف کو بھی اپنا مدعا بیان کرنے کا موقع دیا۔

    اس موقع پر چیف نے داہنا ہاتھ بلند کرکے جج کو دکھایا اور وہ مشہور جملے ادا کیے جو ’’I am a man‘‘ یعنی میں بھی انسان ہوں کے اختصار سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر چیف نے اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ می لارڈ میرے ہاتھ کی جلد کا رنگ آپ جیسا نہیں ہے مگر اگر اس کو کاٹا جائے تو خون نکلے گا اور درد بھی ہوگا، خون کا رنگ آپ کے خون جیسا ہوگا کیوںکہ خدا نے ہی مجھے بنایا ہے اور میں انسان ہوں۔‘‘

    اس کارروائی اور تقریر کے نتیجے میں بالآخر جج ایلمرایس ڈنڈی نے 12مئی1879ء کو یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ ’’مقامی انڈین انسان ہیں۔ چناںچہ ان کو بے وجہ قید نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی ان کی ملکیتی زمینوں سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔‘‘

    اس فیصلے کے نتیجے میں چیف اور ان کے ساتھیوں کی نہ صرف رہائی عمل میں آئی بلکہ انہیں واپس نیبراسکا میں اپنے آبائی علاقوں میں آباد ہونے کا حق مل گیا، جس کے تحت ان کے قبیلے کے دیگر افراد بھی واپس آگئے۔ چیف اسٹینڈنگ بیئر کو مقامی افراد کے انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر بے حد پذیرائی ملی اور انہیں ملک کے مشرقی علاقوں میں بھی خطاب کے لیے بلایا جانے لگا، جہاں سے مقامی قبائل کو مکمل بے دخل کیا جاچکا تھا۔ 2023ء میں ان کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کردیا گیا۔

    ریڈ انڈین افراد کے حقوق اور بحالی کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں لاکوٹا قبیلے کے لوتھر اسٹینڈنگ بیئر کا نام بھی قابل ذکر ہے، جو 1868 میں اپنے قبیلے کے تھوڑے بہت زندہ بچ جانے والے افراد سے روایتی قصے، کہانیاں سنتے پروان چڑھے اور امریکن انڈین بورڈنگ اسکول کے طفیل سفیدفام تعلیم سے بھی مستفید ہوئے۔

    انہوں نے ایک مصنف، فلسفی، معلم اور اداکار کے طور پر خدمات انجام دیں اور انگریزی زبان میں اپنے لوگوں کی ثقافت اور تاریخ کو مرتب کیا۔ انہوں نے مقامی بچوں کے لیے قائم کردہ اسکولوں کے منفی اثرات Reservations میں زندگی کی مشکلات اور اپنے تمدن سے انڈینز کی محبت پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی۔ ان کی تحریروں نے سفید فام آباد کاروں کو مقامی قبائل کے نقطۂ نظر سے روشناس کروایا اور رائے عامہ کو ان کے حق میں استوار کیا جس کے نتیجے میں انڈینز سے متعلق قوانین میں بتدریج تبدیلیاں بھی آئیں۔

    ورنہ اس سے قبل مقامی قبائل کا اس حد تک استحصال کیا جاتا رہا تھا کہ ان کے مویشیوں تک کو بے رحمی سے ختم کردیا جاتا تھا کہ سرکش قبائل فاقہ کشی پر مجبور ہوکر اپنے لیے مختص کردہ علاقوں تک محدود ہوجائیں اور صرف کاشت کاری پر گزر بسر کریں۔ حتیٰ کہ مویشیوں کو چَرانے کے لیے بھی کسی اور علاقے کی طرف نہ جائیں۔

    ان پابندیوں، صعوبتوں اور زبردستی کی ہجرتوں نے براعظم امریکا کے قدیم مقامی باشندوں کے تحت الشعور تک پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ گزرتے زمانے میں اب ان کے لیے آئینی طور پر حالات کو بہتر ضرور کردیا ہے لیکن گزرے وقت کے ستم ان کی یادداشتوں سے محو نہیں ہوئے ہیں۔

    اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے انہوں نے 1980ء میں Wellness یعنی بہتری اور بحالی کی تحریک چلائی ہے جس کا بنیادی مقصد ہے خود پر گزرے ظلم پر بات کی جائے، اس کے اثرات کو سمجھا جائے، ان اثرات سے نکلنے کے لیے مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جائے اور ایک دوسرے کو سہارا دیا جائے۔ ساتھ ہی تاریخی تلخیوں کو بھلاکر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ ان مثبت کوششوں کی بدولت آج بہت سے انڈین افراد امریکی قومیت کے مرکزی دھارے میں نظر آنے لگے ہیں اور سیاست، ثقافت اور فلم اور تھیٹر کے ساتھ ساتھ طب، سائنس اور تدریس کے شعبوں میں اپنا سرگرم کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    تاہم یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی ملکی وسائل اور معیشت میں انہیں وہ حصہ نہیں مل رہا جو ایک اوسط امریکی کو حاصل ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور کینیڈا میں رہنے والے قدیم مقامی انڈین ماضی میں جس جبر اور قتل و غارت کا نشانہ بنے ہیں، آج اسی درجے کی مساعی کے بھی حق دار ہیں مگر عملی طور پر ایسی کوششیں انتہائی ناکافی نظر آتی ہیں۔