عدم آگہی عذاب لاتی ہے !

    ’’مجھے اگر پہلے علم ہوتا اور واقفیت ہوتی تو مَیں اِن عذابوں ، تکلیفوں اور مصائب سے بچ سکتا تھا۔ میری سستیوں، غفلتوں اور عدم آگہی نے مگر مجھے یہ روزِ بد دکھایا ۔ کچھ اللہ نے میرے مقدر میں بھی ایسا ہی لکھا تھا۔‘‘

    ڈائلسس کروانے کے بعد نقاہت کا مارا گردے کا ایک مریض یوں اپنی کتھا بیان کررہا تھا۔ ہم کئی لوگ ایک ماہرِ امراضِ گردہ کی مجلسِ آگہی میں بیٹھے تھے اور کئی مریض، باری باری، اپنی مسائل بھری زندگیوں کے تجربات بیان کررہے تھے۔

    یہ عجب مجلس تھی۔ مایوسیوں اور دکھوں سے بھری ہُوئی !مریض نے اپنی داستان جاری رکھتے ہُوئے کہا: ’’ابتدا میں کئی ہفتوں سے میری بھوک بالکل ختم ہو گئی تھی۔ کھانا سامنے رکھا رہ جاتا تھا مگر نوالہ منہ میں ڈالنے کو رغبت نہیں ہوتی تھی ۔ پھر پیشاب کرنے میں تکلیف ہونے لگی۔ چند روز مزید گزرے تو رات کو سوتے وقت ٹانگوں کے پٹھے اکڑ کر ایذا کا سبب بن جاتے تھے ۔

    ایک روز طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جب مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ ایک نجی اسپتال میں الٹرا ساؤنڈ کروانے کے لیے انتظار گاہ میں بیٹھا تھا، اچانک طبیعت متلانے لگی ۔ چند لمحوں کے بعد زور کی قے آئی ۔ پھر اگلے کئی منٹوں میں کئی اُلٹیاں آئیں ۔ اتنی شدید کہ مَیں وہیں انتظار گاہ میں بے ہوش ہو گیا ۔ فوری طور پر اُسی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ۔ کئی گھنٹوں کے بعد طبیعت ذرا سی سنبھلی تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے یہ بد خبری سنائی کہ میرے گردے فیل ہو چکے ہیں ۔ اِس کا علاج اب ڈائلسس ہے یا گردے کی ٹرانسپلانٹیشن ۔تب سے ڈائلسس کے مسلسل عذابوں سے گزررہا ہُوں ۔‘‘

    ماہرِ ڈائلسس ، جناب سید افسر شاہ، کی سجائی گئی مجلس میں موجود ہر مریض کی کم و بیش یہی داستان تھی ۔ یہی مسائل و مصائب تھے ۔ افسر شاہ صاحب کئی برس سے اِنہی مریضوں کی شفایابی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اُن کی مگر نجی سطح پر کوشش رہتی ہے کہ دورانِ ڈائلسس گردے کے زیر علاج مریضوں کو آگہی کے دروس بھی دیتے رہیں تاکہ نفسیاتی اعتبار ہی سے سہی، مریضوں کو کچھ تشفی اور حوصلہ ملتا رہے ۔ اور یہ بھی کہ امراضِ گردہ کو عذاب بننے سے قبل ہی کیسے روکا یا کم کیا جا سکتا ہے تاکہ ڈائلسس کروانے یا گردے کی ٹرانسپلانٹیشن تک کی نوبت ہی نہ آئے ۔

    اِس تناظر میں سید افسر شاہ صاحب امراضِ گردہ کے لیے آگہی مجالس سجاتے رہتے ہیں ۔ ہمارے لیے بھی اُنھوں نے ایسی ہی مجلس آرائی کی تھی کہ ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو دُنیا بھر میں ’’کڈنی ڈے‘‘ منایا جاتا ہے ۔ اس کا آغاز 2006 میں ’’انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی‘‘اور’’انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فاؤنڈیشنز‘‘کی مشترکہ کوششوں سے ہوا۔اِس دن کے منانے کا مطلب و مقصد ہی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک امراضِ گردہ بارے معلومات پہنچائی جائیں۔اِس سال یہ مفید دن 14مارچ 2024کو منایا گیا ہے۔

    سید افسر شاہ آگہی مجلس میں بتا رہے تھے : ’’ہمیں صحت مند رکھنے کیلیے قدرت نے ہمارے جسم میں لوبیے کی شکل کے دو اعضا رکھے ہیں۔یہ اعضا خاموشی سے نہایت اہم کردار اد اکرتے رہتے ہیں۔ان کے بنیادی کاموں میں جسم کے لیے مفید چیزوں کو جسم میں رہنے دینا، خون فلٹر کرنا، زہریلے اور فالتو مواد کو خارج کرنا اور نمکیات و پانی کا توازن برقرار رکھنا شامل ہیں۔ اگر یہ اپنے کام ٹھیک طرح سے سر انجام نہ دے پائیں تو زندگی صرف متاثر ہی نہیں ہوتی بلکہ خطرے میں بھی پڑجاتی ہے۔ اس لیے انھیں صحت مند رکھنا اشد ضروری ہے۔ ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر، پین کلرز کا بے جا استعمال، گردوں کی پتھری،موروثی بیماریاں،گردے کی سوزش گردوں کو تباہ کردیتی ہیں ۔‘‘

    اور گردے جب آہستہ روی سے خرابی کی طرف مائل ہو رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت اکثر لوگوں کو اِس کا علم ہی نہیں ہو پاتا ۔ حتیٰ کہ ایک دن صحت کی مکمل تباہی کا پہاڑ آ گرتا ہے ۔ قدرت و فطرت مگر جسم میں تبدیل ہوتی بعض نشانیوں کی صورت میں واضح طور پر انتباہ کررہی ہوتی ہے کہ گردے خراب ہو رہے ہیں، اِن کا دھیان کر لو ۔ بقول افسر شاہ صاحب ،خرابی کے آثار کچھ یوں سامنے آتے ہیں: ’’ گردے خراب ہونے کی وجہ سے جسم میں پانی اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اِس کی وجہ سے ہاتھوں، پیروں اور چہرے پر سوجن نمودار ہو جاتی ہے۔

    پانی کی یہ زیادتی پھیپھڑوں میں بھی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔خون میں فاسد مادوں میں اضافے کی وجہ سے بعض اوقات نیم بے ہو شی بھی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات چکر آنے لگتے ہیں۔ پیشاب میں خون بھی آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ مریض کو رات کے وقت پیشاب زیادہ آنے لگتا ہے ۔ جلد خشک ہونے لگتی ہے ۔ اور یوں بدن پر خارش بڑھ جاتی ہے ۔‘‘

    دُنیا بھر میں امراضِ گردہ اُن امراض کی فہرست میں ہیں جو زندگی کو عذابوں میں ڈال رہی ہیں۔ امراضِ گردہ ہر سال لاکھوں انسانوں کی اموات کا باعث بن رہے ہیں۔ اس لیے اِنہیں معمولی خیال کرنا چاہیے نہ اِس بارے غفلت برتنی چاہیے ۔سید افسر شاہ بتا رہے تھے :’’اس وقت دنیا بھر میں 850 ملین سے زائد افراد گردوں کی دائمی بیماری یعنی CKD سے متاثر ہیں۔ اس کے نتیجے میں 2019 میں 1.3ملین سے زیادہ اموات ہوئیں۔

    اس وقت گردے کی بیماری موت کی آٹھویں بڑی وجہ ہے۔ امراضِ گردہ کے عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اِس طرف توجہ نہ دی گئی اور عدم آگہی کا دائرہ پھیلتا چلا گیا تو 2040 میں یہ مرض موت کی پانچویں بڑی وجہ بن جائے گی‘‘۔ جدید میڈیکل سائنس نے مگر مریضوں کے لیے نوید اور اُمید بھی پیدا کی ہے۔ بقول سید افسر : ’’CKD کے علاج میں پیش رفتیں دل کی بیماری اور گردے فیل ہونے جیسی پیچیدگیوں میں کمی لانے کا باعث بنی ہیں۔ یوں گردوں کی بیماری سے متاثرہ افرادکی زندگی طویل اور بہتر ہونے لگی ہے۔

    آگاہی کی کمی، علاج کی نئی حکمت عملیوں پر ناکافی علم یا ان پر اعتماد نہ ہونا، گردے کے ماہرین کی کمی اور علاج کے بھاری اخراجات اس کی راہ میں پھر بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں ہی نہیں،زیادہ آمدن والے کچھ ممالک میں بھی امراضِ گردہ کے علاج کی سہولیات تک رسائی میں گہری عدم مساوات پائی جاتی ہے‘‘ ۔

    وطنِ عزیز میں امراضِ گردہ میں مبتلا افراد کی اموات کا زیادہ سبب کچھ یوں ہے :ہمارے ہاں ہیلتھ انشورنس نہ ہونے کے برابر ہے ، اس لیے مریض امراضِ گردہ کے بھاری اخراجات برداشت نہ کرتے ہُوئے موت کی وادی میں اُتر جاتے ہیں ۔

    ادھر کچھ برسوں سے’’ صحت سہولت کارڈ‘‘ سے مذکورہ مرض میں مبتلا کچھ مریضوں کی سرکاری مدد ہونے لگی ہے ۔ اِس نے یقیناً کئی مریضوں کی دستگیری کی ہے ۔ لیکن صحت سہولت کارڈ سب جگہوں پر بروئے کار نہیں آ رہا ۔ بہرحال، امراضِ گردہ کی ادویات کا بے حد مہنگا ہونا اور ہیلتھ ورکرز میں اِس بارے شدید عدم واقفیت کی موجودگی بھی اموات اور امراض میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اِس مہلک سے مرض سے بچنا ہے تو ہم سب کو بکثرت صاف پانی پینا چاہیے ، تمباکونوشی سے پرہیز لازم ہے ، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے بچنا چاہیے اور باقاعدہ سیر ضروری ہے ۔