حکام کی لاپرواہی؛ لیاری یونیورسٹی 13برسوں میں عروج سے زوال کی جانب گامزن

      کراچی: سندھ کے دارالحکومت کراچی کے معروف علاقے میں ایک دہائی قبل قائم کی گئی بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی ‘المعروف لیاری یونیورسٹی’ علاقائی سیاست اور حکام کی عدم توجہی کی نذر ہوگئی ہے جہاں زیرتعلیم طلبہ اپنے شعبوں میں سینئر اساتذہ سے محروم ہیں اور پوری یونیورسٹی جونیئر اور جز وقتی اساتذہ چلا رہے ہیں۔

    یونیورسٹی میں بعض ایسے شعبہ جات بھی ہیں جو مکمل طورپرشعبے سے غیرمتعلقہ یا جز وقتی اساتذہ کے سپرد کردیے گئے ہیں، یہ پاکستان کی ایسی یونیورسٹی ہے جہاں نہ کوئی پروفیسرہے اور نہ ہی کوئی ڈین موجود ہے، یونیورسٹی کے کئی شعبہ جات کے کتب خانوں میں متروک کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔

    شعبہ فارمیسی متعلقہ آلات اور جامع تجربہ گاہوں سے محروم ہے اور حیرت انگیز طور پر فارمیسی کی تعلیم جدید اصولوں سے قطع نظر اس کی تمام شاخوں کو یکجہا کرکے دی جارہی ہے۔

    لیاری یونیورسٹی گزشتہ دوبرس سے اپنے مستقل وائس چانسلر سے بھی محروم ہے اور کراچی کے ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے پاس اس جنرل یونیورسٹی کا اضافی چارج ہے۔

    یونیورسٹی کی اس گھمبیر صورت حال اور اساتذہ کی عدم دستیابی کے بعد ہائر ایجوکیشن (ایچ ای سی) سندھ نے یونیورسٹی میں کسی بھی نئے شعبے کے قیام سے روک دیا ہے۔

    واضح رہے کہ سندھ کی سرکاری جامعات کی یہ پیچیدہ صورت حال سندھ ایچ ای سی کے ذیلی ادارے چارٹرانسپیکشن اینڈ ایویلیویشن کمیٹی کی جانب سے پہلی بار شروع کیے گئے سرکاری جامعات کے انسپیکشن سے سامنے آرہی ہے۔

    یادرہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹوکے سے منسوب لیاری یونیورسٹی 2010 میں قائم کی گئی تھی اور یہ ان مخصوص جامعات میں سے ایک ہے جس میں کراچی کے مضافاتی ٹاؤنز یا اضلاع میں مقیم نوجوانوں کواعلیٰ تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے علیحدہ سے نشستیں مخصوص ہیں۔

    لیاری یونیورسٹی میں 55 فیصد نشستیں لیاری، کیماڑی،گڈاپ اور ملیرٹاؤن جبکہ کراچی سمیت پورے سندھ کے لیے 35 فیصد اور10فیصد نشستیں اوپن میرٹ پر ہیں۔

    لیاری یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختربلوچ ایک خاتون رکن اسمبلی کو موبائل فون کے ذریعے ہراساں کرنے کے الزام میں گزشتہ دو برس سے زائد عرصے سے جبری رخصت پر ہیں تاحال ان پر یہ الزام ثابت ہی نہیں ہوسکا اور نہ ہی ان کی بحالی یا پھر برطرفی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرقیادت پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کی حکومت 6ماہ بعد صوبے میں واپس آگئی ہے لیکن اس یونیورسٹی کی سربراہی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

    خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں سال ستمبر میں ڈاکٹر اختر بلوچ کی مدت ملازمت پوری ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

    ایکسپریس نے چیئرمین سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن ڈاکٹرطارق رفیع سے جب اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘جس یونیورسٹی میں دو سال سے کوئی وائس چانسلر نہ ہو ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ یہاں کوئی بہتری آسکتی ہے، مستقل وائس چانسلرکے حوالے سے فیصلہ نہ ہونے کے سبب یہاں مشکلات زیادہ ہیں’۔

    واضح رہے کہ سبجیکٹ ایکسپرٹ اور وائس چانسلرز پر مشتمل چارٹرایویلیویشن کمیٹی کی جانب سے کیے گئے اس یونیورسٹی کے معائنہ وزٹ سے یونیورسٹی کی انتہائی پیچیدہ صورتحال سامنے آئی ہے۔

    بتایا جارہا ہے کہ یونیورسٹی سے الحاق شدہ لا کالج یونیورسٹی کے کنسٹیٹیوٹڈ کالج کے طور پر کام کر رہا ہے، اس یونیورسٹی میں نہ کوئی مستقل ڈائریکٹرفنانس ہے اورنہ ہی کنٹرولر آف ایگزامینیشن مستقل بنیاد پر تعینات ہے، اسی طرح رجسٹرار بھی عارضی ہے۔

    کمیٹی کے مذکورہ دورے کے وقت یونیورسٹی میں صرف چارپی ایچ ڈی اساتذہ تھے جبکہ قائم مقام رجسٹرار کی دی گئی پریزینٹیشن کے مطابق یونیورسٹی میں ایک بھی پروفیسر نہیں ہے اور اس سلسلے میں یہ یونیورسٹی فیکلٹی کے حوالے سے فیڈرل ایچ ای سی کے مطلوبہ معیارات پر بھی پورا نہیں اترتی جو وزیٹنگ فیکلٹی اس یونیورسٹی میں بلائی جارہی ہے وہ اساتذہ پروفیسرسطح کے نہیں ہیں۔

    لیاری یونیورسٹی میں 2023 میں دو شعبے میڈیا سائنس اور اسلامک اسٹڈیز قائم کیے گئے ہیں تاہم یہ دونوں پروگرام بھی متعلقہ فیکلٹی کی عدم موجودگی میں ہی شروع کردیے گئے ہیں اور وزیٹنگ فیکلٹی کے ذریعے نئے پروگرام چلائے جارہے ہیں، جس میں فزیکل ایجوکیشن کا پروگرام بھی شامل ہے۔

    چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے ایک رکن ایڈیشنل سیکریٹری کالج ایجوکیشن فقیر محمد لاکھو نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ حکومت سندھ کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے انڈومنٹ فنڈ کی جو رقم دی جاتی ہے وہ طلبہ تک نہیں پہنچتی اور اس سلسلے میں کئی شکایات موصول ہوچکی ہیں۔

    اسی طرح یونیورسٹی کے سب سے کلیدی ادارے ‘سینیٹ’کا اجلاس آخری بار 2014 میں ہوا تھا اور یونیورسٹی کا بجٹ سینیٹ کی منظوری کے بغیر ہی استعمال ہورہا ہے۔

    شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی عمارت میں کئی دیگر شعبہ قائم کردیے گئے ہیں، کلاس رومز، لیب اور دفاتر کا انفرااسٹرکچر قابل توجہ ہے، فیکلٹی کے دفاتر انتہائی خراب حالت میں ہیں اور لائبریری کی کتابیں متروک ہوچکی ہیں ۔

    مزید براں شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مستقل اساتذہ مطلوبہ تعداد میں موجود نہیں ہیں، شعبے کی ڈیجیٹل لائبریری غیرفعال ہے، شعبہ فارمیسی میں فارما کیوٹکس، فارما کیولوجی، فارما کیوٹیکل کیمسٹری، فارما کگنوسی اور فارمیسی پریکٹس کے شعبوں کے بجائے محض فارمیسی کاایک ہی شعبہ ہے اور شعبے کی لیبز میں اس سے متعلق ٹیکنیکل اسٹاف موجود ہی نہیں ہے، شعبہ انگریزی میں 450 طلبہ کے لیے چار کلاس رومز قائم کیے گئے ہیں۔

    ادھر یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ یونیورسٹی کا بجٹ فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی میں پیش ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی بجٹ کی سینڈیکیٹ یاسینیٹ سے منظوری لی جاتی ہے جبکہ کمیٹی کے دورے کے وقت تک 2023 میں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کااجلاس نہیں ہوسکا، انسپیکشن کمیٹی نے یونیورسٹی میں مالی امور کو سنگین مالی بے ضابطگیوں سے تعبیر کیا ہے۔

    علاوہ ازیں بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی کے قائم مقام سربراہ اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن سے جب ‘ایکسپریس’ نے یونیورسٹی کی اس پیچیدہ صورتحال پر رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس یونیورسٹی کو اوور امپاورمنٹ نے برباد کر دیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ کے دور میں انہیں دباؤ میں لے کر بھرتیاں کروائی جاتی تھیں اور انھیں مجبور کیا جاتا تھا، وہ وقت گینگ وار کا تھا وہ بھی مجبور ہوجاتے تھے۔

    قائم مقام وائس چانسلر نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ ہم نے فنانس اینڈپلاننگ کمیٹی کاحالیہ اجلاس کیا ہے اس میں ایچ ای سی کی ڈائریکٹر فنانس کو بھی مدعو کیا تھا وہاں یہ حقیقت سامنے آئی کہ چند مہینے بعد یونیورسٹی کے پاس تنخواہوں کے لیے بھی رقم نہیں ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ کے ساتھ کئی طرح کے الاؤنسز لیے جارہے ہیں جس سے علیحدہ مالی بوجھ پڑ رہا ہے جبکہ ایچ ای سی ہاؤس سیلنگ دینے سے مسلسل منع کر رہی ہے۔

    قائم مقام وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی بھرتیاں کیسے کریں، انھیں تنخواہیں کہاں سے دیں گے لہٰذا اب فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کرکے ان سے اسپیشل گرانٹ کی درخواست کی جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں قانون کی عمل داری کے لیے رجسٹرارکے عہدے پر ایک لیفٹننٹ کرنل (ر) قائم الدین کو فائز کیا گیا ہے۔