کوچۂ سخن – ایکسپریس اردو

    غزل
    دل کو شعورِ عشق کا استاد کرکے آپ
    جاتے کہاں ہیں شہر یہ آباد کر کے آپ
    بیٹھے ہیں اب سکون سے ملبے کے ڈھیر پر
    مسمار اپنے جسم کی بنیاد کرکے آپ
    دیکھیں ہوا میں پھیلتی خوشبو کے شعبدے
    رکھیں ربن سے بالوں کو آزاد کر کے آپ
    مر بھی گئے تو پہنچیں گے آواز پر جناب
    رفتار دیکھیے گا کبھی یاد کر کے آپ
    سب منکرینِ عشق کا ہوگا الگ جحیم
    بچ پائیں گے نہ فتنۂ الحاد کر کے آپ
    کچھ تلخ ہو گیا ہے یہ لہجہ نہ جانے کیوں
    شیریں نہیں رہے ہمیں فرہاد کر کے آپ
    (آزاد حسین آزاد۔ کراچی)

    غزل
    دھڑکتا دل سنائی دے رہا ہے
    کوئی اتنی رسائی دے رہا ہے
    میں خوشبو کے سہارے چل رہا ہوں
    اندھیرے میں دکھائی دے رہا ہے
    مرے دل کو لہو اور رنگ دونوں
    ترا دست حنائی دے رہا ہے
    پلک کی نوک پر آنسو کا قطرہ
    قلم کو روشنائی دے رہا ہے
    کناروں پر جلادی کشتیاں پر
    ابھی تک گھر دکھائی دے رہا ہے
    ہر اک چہرے میں پچھلے کچھ دنوں سے
    ترا چہرہ دکھائی دے رہا ہے
    سر محفل ترا انجان بننا
    ثبوتِ آشنائی دے رہا ہے
    امیر ِشہر ہی مجرم نہ نکلے
    جرائم پر صفائی دے رہا ہے
    (خواجہ ساجد۔ ناگپور، بھارت)

    غزل
    اک شخص محبت کا ہنر بیچ رہا ہے
    پاگل ہے وفاؤں کا ثمر بیچ رہا ہے
    جگنو نے لگائی ہے بڑے زعم میں بولی
    نادار فلک شمس و قمر بیچ رہا ہے
    سورج کے پرستار خریدار ہیں سارے
    اک رات کا قزاق سحر بیچ رہا ہے
    کس طرز و وضع کا نیا انداز ہے اس کا
    وہ شخص جو اندھا ہے نظر بیچ رہا ہے
    ملتا ہی نہیں اس کو کہیں کوئی خریدار
    جو لوح و قلم شعر و ہنر بیچ رہا ہے
    اک بوند ہی قیمت ہے اگر تم بھی خریدو
    پیاسا کوئی جو خونِ جگر بیچ رہا ہے
    ممکن ہی نہیں بیچنا احساسِ دل و جاں
    جاں دے کے خریدو کوئی گر بیچ رہا ہے
    میں بانٹ رہا ہوں گلی کوچوں میں عزائم
    بازارِ سیاست میں وہ ڈر بیچ رہا ہے
    (کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ ،انڈیا)

    غزل
    اپنی اوقات دکھانے کے لیے آیا تھا
    مجھ سے وہ ہاتھ ملانے کے لیے آیا تھا
    تیسرے شخص کا کردار صرف اتنا تھا
    وہ فقط مجھ کو جلانے کے لیے آیا تھا
    بیچ رستے میں مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
    وہ جو تا عمر نبھانے کے لیے آیا تھا
    اس لیے میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اس کو
    وہ تو اس بار بھی جانے کے لیے آیا تھا
    جس کو گر کر کبھی اٹھنے کا ہنر نہ آیا
    آج وہ مجھ کو گرانے کے لیے آیا تھا
    میرے گرنے میں بڑا ہاتھ تھا جس کاارسلؔ
    میری میّت کو اٹھانے کے لیے آیا تھا
    (ارسلان شیر۔ کابل ریور، نوشہرہ)

    غزل
    دستہ تھامے ہوئے، تلوار کو تکتے رہنا
    فیصلے کے لیے سردار کو تکتے رہنا
    بے بسی حد سے سوا ہو، کوئی چارا بھی نہ ہو
    کتنا مشکل ہے نا بیمار کو تکتے رہنا؟
    جانے کیسے تُو یہ سہہ لیتا ہے اے خالقِ کن
    ایک بھوکے کا یوں مردار کو تکتے رہنا
    بس یہی کام ہے اب وحشت و تنہائی میں
    یونہی چپ چاپ سا دیوار کو تکتے رہنا
    کوئی ایسے بھی بھلا کرتا ہے افسانے میں
    خود قلم چھوڑ کے کردار کو تکتے رہنا
    گھر سے آتے ہوئے تاکید یہ کی تھی ماں نے
    حسرتیں رکھ کے خریدار کو تکتے رہنا
    جنگ میں مات کی اک وجہ تو یہ بھی ٹھہری
    چھت سے شہزادی کا سالار کو تکتے رہنا
    اک ترا نام وسیلہ ہے عزاداروں کا
    یا علی حشر میں حُب دار کو تکتے رہنا
    (تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)

    غزل
    ترے بغیرمری سانس اکھڑ نہ جائے کہیں
    یہ دل جدائی میں اندر ہی سڑ نہ جائے کہیں
    نہ اتنا سامنے آؤ کہ ہوش باقی رہیں
    ہماری آنکھ کی عادت بگڑ نہ جائے کہیں
    ہمارے چہرے پہ رونق ابھی سلامت ہے
    مگر یہ ڈر ہے کہ یہ بھی اُجڑ نہ جائے کہیں
    نقاب رخ سے ہٹانے سے پہلے دھیان رہے
    یہ سارا گاؤں ترے پیچھے پڑ نہ جائے کہیں
    مرا مذاق اڑانے سے پہلے یاد یہ رکھ
    مرا خیال ترے دل میں اڑ نہ جائے کہیں
    یہ پارسائی کے اربابؔ چرچے ٹھیک نہیں
    ہماری عمر کا پتا ہی جھڑ نہ جائے کہیں
    (ارباب اقبال بریار۔واہنڈو،گوجرانوالہ)

    غزل
    ہم کہ تخلیق ہوئے صرف جلانے کے لئے
    حیلے مت کر اے ہوا ہم کو بجھانے کے لئے
    بر سرِ راہ جلیں گے کریں گے روشنی ہم
    ہم ہی آئیں گے تجھے راہ دکھانے کے لئے
    ہم ہیں وہ لوگ جو سچ لکھتے ہیں سچ کہتے ہیں
    تیغِ قاتل کی طرح ہم ہیں زمانے کے لئے
    جھوٹ پر جھوٹ کہے دیتے ہیں کچھ لوگ یہاں
    نام کے سچے حقیقت کو چھپانے کے لئے
    اور ہم جھوٹے قصیدے تو رہے لکھنے سے
    شاعری کے سوا بھی فن ہیں کمانے کے لئے
    اپنی محنت کی کمائی سے بنایا ہو اگر
    ایک خیمہ ہمیں کافی ہے ٹھکانے کے لئے
    کوئی ہو بھی تو ذرا پیکرِ اخلاص یہاں
    حمزہؔ تیار ہوں میں جوتے اٹھانے کے لئے
    (امیر حمزہ سلفی۔اسلام آباد؎)

    غزل
    محبت کا ذرا سا بھی جسے ادراک ہو جائے
    شہنشاہی کو رکھ دے پھر پرے اور خاک ہو جائے
    یہ پتھر دل کہاں جانیں کہ کیا ہے درد کی نعمت
    یہ رکھتے ہی نہیں وہ آنکھ جو نمناک ہو جائے
    مرے ہنستے ہوئے چہرے کا کیسے راز جانو گے
    کبھی چاہا نہیں تم نے کہ پردہ چاک ہو جائے
    غنیمت ہے کہ دولت سے ابھی تک پیٹ بھرتا ہے
    ڈرو!آدم نہ آدم کی کہیں خوراک ہو جائے
    زمیں پر ہی قدم ٹکتے نہیں انسان کے سوچو
    کرے گاکیا کہ اس کے بس میں جب افلاک ہو جائے
    محبت اوڑھنا میرا،بچھونا اور تکیہ ہو
    یہی مسند،یہی پگڑی، یہی پوشاک ہو جائے
    (ندیم دائم۔ ہری پور)

    غزل
    سچ کہنے کی پاداش میں،ہاں مار ڈالیے
    طوقِ ستم گلے میں سرِ دار ڈالیے
    ’’جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر‘‘
    پھولوں کو اب نہ راہ میں بیکار ڈالیے
    ہم جیتنے ہی والے تھے پر عین وقت پر
    اوپر سے حکم آیا کہ ہتھیار ڈالیے
    اصلاح کرنے والے بھی کہتے ہیں آخرش
    تنقید کر رہا ہے اسے مار ڈالیے
    حارث ؔجنہیں ہمارے سخن کی خبر نہیں
    آج ان کے گھر میں جائیے اخبار ڈالیے
    (حارث انعام۔ نوشہرہ)

    غزل
    دل کے دروازے پر آئے گزرے لمحے برسوں بعد
    میں نے ان سے پوچھا بولو ایسے کیسے برسوں بعد
    سنتا ہوں کل مجھ سے ملنے تم میرے گھر آئے تھے
    آخر تم کو کیا سوجھی ہے بیٹھے بیٹھے برسوں بعد
    جاؤ اپنا کام کرو تم میرے دل سے مت الجھو
    دل تھوڑا سا شاد ہوا ہے ہوتے ہوتے برسوں بعد
    اچھا بیٹھو کچھ بتلاؤ ان برسوں میں کیا گزری
    مجھ کو بھی تم لگتے ہو کچھ الجھے الجھے برسوں بعد
    اب تم اپنے دل کی حالت مجھ کو کیوں بتلاتے ہو
    تم ہی بولو اچھا ہے کیا یہ سب اتنے برسوں بعد
    تم نے اپنے ہاتھوں سے خود اپنا گلشن نوچا تھا
    چنتے بیٹھو اب یادوں کے ٹکڑے ٹکڑے برسوں بعد
    اپنی اپنی قسمت ہے اور اپنا اپنا حصہ ہے
    کوئی بولے برسوں پہلے کوئی سمجھے برسوں بعد
    (فرحان دل۔مالیگاؤں،انڈیا)

    غزل
    نظر سے پردہ ہٹا تھا ہزار صدیوں بعد
    کوئی خدا سے ملا تھا ہزار صدیوں بعد
    کسی کو نیند میسر ہوئی تھی آخرِ کار
    کسی کو خواب دکھا تھا ہزار صدیوں بعد
    تمام لوگ خدا کی طرف پلٹنے لگے
    ذرا سا قحط پڑا تھا ہزار صدیوں بعد
    زمین فرطِ مسرت سے رقص کرنے لگی
    کسی نے عشق کیا تھا ہزار صدیوں بعد
    فرار ہو کے میں غاروں میں سو گیا تھا کہیں
    پھر ایک روز اٹھا تھا ہزار صدیوں بعد
    سمجھ گیا تھا میں سقراطی فلسفہ عابرؔ
    سو میں نے زہر پیا تھا ہزار صدیوں بعد
    (نعمان عابِر۔ حافظ آباد)

    غزل
    گلا دلوں کی گھٹن کا دبا رہے ہیں لوگ
    غموں سے چور ہیں پر مسکرا رہے ہیں لوگ
    یتیم لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے
    جنم دنوں پہ تو دولت لٹا رہے ہیں لوگ
    دبائے بیٹھے ہیں حق اپنے رشتے داروں کا
    سنا ہے تیسرے عمرے کو جا رہے ہیں لوگ
    جو چند سکو ںمیں ایمان بیچ دیتے ہیں
    انھیں ہی قوم کا رہبر بنا رہے ہیں لوگ
    ہوس جہیز کی اس قدر بڑھ گئی ہے رضاؔ
    جوان بچوں کی عمریں بڑھا رہے ہیں لوگ
    (رضا بڈنیروی۔ امراتی، مہاراشٹر، بھارت)

    سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
    انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
    روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی