بُک شیلف – ایکسپریس اردو

    مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں
    مولف : مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم
    ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال لاہور
    قیمت : پاکٹ سائز 190روپے، میڈیم سائز 250 روپے ،لارج سائز 390روپے
    برائے رابطہ :042-37324034

    رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ۔ رمضان المبارک میں فرضی نماز ہو یا نوافل یا روزمرہ کی دعائیں ان کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے، تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان یہ سب عبادات مسنون طریقے کے مطابق بجا لائے ۔ عبادات میں سے نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔ حدیث کی رو سے یہ دین کا ستون اور معراج کا عظیم تحفہ ہے ، روزِ قیامت سب سے پہلے نماز ہی کی پرشس ہو گی ، لہٰذا نماز کی حفاظت کے پیش نظر دارالسلام انٹر نیشنل نے زیر نظر کتاب ’’ مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں ‘‘ شائع کی ہے ۔

    یہ کتاب مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کی تالیف ہے ۔ محترم حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کا نام علمی دینی حلقوں کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے ۔ وہ جید عالم دین، محقق ، مفسر ، اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ، وفاقی شرعی عدالت کے جج اور کتب کثیرہ کے مصنف تھے ۔ اردو کے علاوہ دیگر کئی زبانوں میں بھی ان کی کتابوں کے تراجم شائع ہو چکے ہیں ۔

    زیر نظر کتاب ’’ مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں ‘‘ کے عنوان سے حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کی مختصر مگر بہت جامع کتاب ہے جس میں نماز کے احکام کے علاوہ طہارت اور وضو کے مسائل ، نیز مسنون اذکار اور دعائیں بھی شامل کی گئیں ہیں ۔ یہ بات خلاصہ کلام کی حیثیت رکھتی ہے کہ نماز ہی مسلم و غیر مسلم کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے ۔

    اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نماز پابندی سے اور مسنون طریقے سے ادا کرے ۔ زیر نظر کتاب ’’ مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں ‘‘ اس مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے ۔ کتاب میں غیر ضروری اور پیچیدہ مباحث سے پرہیز کیا گیا ہے ۔ یہ بات بلا خوف تردید کی جا سکتی ہے کہ نماز کے متعلق کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو اس کتاب میں بیان نہ کیا گیا ہو ۔ کتاب کے معنوی حسن کے ساتھ ساتھ اس کے ظاہری حسن کو خوبصورت کتابت نے چار چاند لگا دیے ہیں ۔ الحمد اللہ ، ان خوبیوں نے اس کتاب کو نماز کے موضوع پر لکھی گئی تمام کتب میں منفرد بنا دیا ہے ۔ کتاب میں نماز کے طریقہ نبوی کے علاوہ نماز پنجگانہ یعنی پانچ فرض نمازوں اور دیگر نمازوں کی تفصیل ، ان کے ضروری احکام و مسائل اور روز مرہ کی دعائیں شامل ہیں ۔ کتاب کی چند امتیازی خصوصیات درج ذیل ہیں :

    کتاب میں صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا گیا ہے ۔ تفصیل کی بجائے اختصار سے کام لیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض جگہ حوالوں کے بغیر بھی بہت سے مسائل بیان کیے گئے ہیں لیکن ایسا صرف اختصار کے پیش نظر کیا گیا ہے ورنہ کوئی مسئلہ بے دلیل نہیں ہے ۔ اکثر جگہوں پر حوالے موجود ہیں اور وہ مکمل شکل میں ہیں یعنی کتاب ، باب او ر حدیث نمبر تاکہ دلیل اور حوالہ کا متلاشی آسانی سے اصل کتاب تک رسائی حاصل کر سکے ۔ نماز اور دعائوں کا ترجمہ لفظی کیا گیا ہے تاکہ ہر لفظ کا ترجمہ سمجھ میں آجائے ۔ نماز اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس سے بے اعتنائی بھی عام ہے ۔ اکثر لوگ تو اس فریضے سے بالکل ہی غافل ہیں اور جو نمازی ہیں وہ بھی نماز میں تعدیل ارکان اور خشوع خضوع کا قطعاََ اہتمام نہیں کرتے ۔ اس لیے نماز کی حقیقت سے وہ بھی بے خبر اور اس کے فوائد سے یکسر محروم ہیں ۔ حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کامیابی کی نوید انہی اہل ایمان کے لیے بیان کی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں ۔ نماز میں خشوع اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک سنت نبویﷺ کے مطابق نماز نہ پڑھی جائے ۔ اس کتاب میں نماز کا طریقہ اس کے دیگر احکام و مسائل ، سب سنت رسول ﷺ ہی کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کتاب کا مطالعہ تمام مردو خواتین ، بچوں بزرگوں کے لئے بے حد مفید ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔

    زکوٰۃ ،عشر اور صدقۃ الفطر
    فضائل، احکام ومسائل
    مئولف : حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم
    ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال ، لاہور
    صفحات : 135، قیمت : 220 روپے ، برائے رابطہ :042-37324034


    شعبان اور رمضان المبارکی آمد آمد ہے ۔ ان مہینوں میں مسلمان اپنے مال ، زیورات ، سونا چاندی میں سے زکوٰۃ نکالتے ہیں ۔ زکوٰۃ ۔۔۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے جو نہ صرف مال کو پاک کرتا بلکہ مال کو بڑھاتا بھی ہے جبکہ پاکیزہ مال انسان کی صحت سلامتی اور جان ومال میں برکت کا اہم ذریعہ ثابت ہوتا ہے ۔

    زکوٰۃ جس قدر اہم فریضہ ہے ہمارے مسلمان بھائی بہنیں اس کے نصاب ، مسائل اور فضائل سے اتنے ہی لاعلم ہیں ۔ پیش نظر کتاب ’’ زکوٰۃ ، عشر اور صدقۃ الفطر‘‘ اسی موضوع پر ایک اہم پیشکش ہے جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ ’’ دارالسلام‘‘ نے اپنے روایتی تزک و احتشام ، خوبصورت جاذب نظر ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ کتاب کے مصنف مفسر قرآن ، جید عالم دین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم ہیں ۔ حافظ صلاح الدین یوسف کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ جس موضوع پر لکھتے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھنے کا حق ادا کر دیا کرتے تھے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع کے تمام پہلوئووں کاکماحقہ احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

    حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم نے زکوٰۃ ، عشر ، صدقۃ الفطر اور ان سے متعلقہ کسی بھی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا ۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے دو پہلو ہیں ۔ عبادت ہونے کے اعتبار سے اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور چونکہ اس سے بندگان الہی بھی مستفید اور فیض یاب ہوتے ہیں ، لاکھوں کروڑوں فقرا و مساکین ، یتامیٰ ، بیوگان ، معذور اور اپاہج قسم کے افراد کے معاشی مفادات بھی زکوٰۃ سے وابستہ ہیں ۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے ۔ اس سے زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت واضح ہے ۔

    اس کے عبادت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ادائیگی سے انسان کو اللہ کا خصوصی قرب اور اس کی رضا حاصل ہوتی ہے، مال بڑھتا اور پاک ہوتا ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ معاشرے کے معذور اور نادار افراد کی معاشی کفالت کا بھی ایک بہت بڑاذریعہ ہے۔ جس سے ایک انسان کے دل میں ضرورت مندوں کی خبرگیری اور ان کی خیرخواہی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ چار ابواب پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟ زکوٰۃ نہ دینے کے لئے کیا وعید ہے؟ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر صدقات، اجتماعی طور پر زکوٰۃ کی تقسیم کے فوائد، زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے لئے نبی کی کیا ہدایات ہیں، کیا مقروض پر زکوٰۃ ہے یا نہیں ؟ مشینری پر زکوٰۃ ، سونے، چاندی، زیور، مال تجارت، نقدی، زرعی پیداوار ، پھلوں کا نصاب کتنا ہے، مال ِ تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے، پھلوں اور غلوں کے نصاب کا وقت کیا ہے؟ جانوروں کی زکوٰۃ کی تفصیل؟ مصارف زکوٰۃ کیا ہیں؟ وہ افراد جن کے لئے زکوٰۃ جائز نہیں۔ صدقۃ الفطر کے کیا مسائل ہیں۔۔۔؟ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان معاشروں میں معاشی ناہمواری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ایک طرف دولت کے جزیرے آباد ہیں اور دوسری طرف غربت و ناداری کی گہرائیاں ہیں۔

    گداگری کی لعنت عام ہے، سفید پوش قسم کے لوگوں سے تعاون کاکوئی آبرومندانہ انتظام نہیں، گردش دولت کی وہ صورت نہیں ہے جو اسلام میں مطلوب ہے بلکہ دولت جمع کرنے کی ہوس ہے جو اسلام میں بالعموم ناپسندیدہ ہے، باہم تعاون کی وہ کیفیت نہیں جن کا اہتمام زکوٰۃ کے ذریعے سے کیا جاتا ہے اور کلمۃ اللہ کی سربلندی کا وہ اہتمام بھی نہیں ہے جوزکوٰۃ کے ایک مصرف فی سبیل اللہ کے قدرے وسیع مفہوم و مطلب کا تقاضہ ہے، اسی طرح تالیف قلب کا بھی خاص اہتمام نہیں ہے جس کے ذریعے سے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کیا جا سکے ۔

    اس کتاب میں ان تمام پہلوئوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو علماکے لئے بھی قابل غور و فکر ہیں اور ارباب بست وکشاد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہیں ۔ کتاب کے آخر میں زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کے افکار و نظریات کا ذکر اور بالخصوص غلام احمد پرویز کے اشتراکی نظریہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لے کر ان کا رد کیاگیا ہے ۔ اس طرح سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کئی گنا بڑھ گئی ہے جو کہ اہل اسلام کے لئے ایک گرانقدر ہدیہ سے کم نہیں ہے ۔ شعبان اور رمضان کے ایام شروع ہونے سے پہلے اس کتاب کا ہر صاحب ِ نصاب زکوٰۃ فرد کے پاس ہونا مفید ہے۔ کتاب کی قیمت 140روپے ہے۔ یہ کتاب دارالسلام کے مرکزی شوروم نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لوئر مال پر دستیاب ہے۔

    قلم شعاعیں تراشتے ہیں
    اسرار الحق مجاز نے اپنی نظم ’ ایک جلا وطن کی واپسی‘ میں کہا تھا :
    دیکھ شمشیر ہے یہ‘ ساز ہے یہ‘ جام ہے یہ
    تو جو شمشیر اُٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ

    ایک فن کار کے تخلیقی وفور کو مہمیز کرنے میں شمشیر‘ ساز اور جام تینوں کی کارفرمائی مسلّم ہے، اصل بات یہ ہے کہ سچا فنکار ان تینوں کے توسط سے انسانی برادری کے لیے آگہی اور کردار و عمل میں رفعت کی راہیں کھولتا ہے۔ فن کی دنیا میں شاعری کا مقام بہت بلند ہے، ایک شاعر چنگ و رباب کی ضربوں میں ڈوب جائے یا پھر جام و صبو کی طفیل بظاہر بے خودی میں عرفان کی منازل طے کرے، اس کے قلم سے اس کے گرد و پیش کو منور کرنے والی شعاعیں ہی پھوٹتی ہیں اور یہی وصف اسے لفظوں کی سوداگری کرنے والے شعبدہ بازوں سے الگ کر کے حرف کی حُرمت کے امین سچے فنکاروں کی الگ پہچان عطا کرتا ہے۔

    بظاہر ہمارے ہاں ’ساز‘ اور ’جام‘ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ’خواہ اس کا ذکر شاعری ہی کے حوالے سے کیوں نہ ہو رہا ہو‘ لیکن اپنے ماحول اور گرد و پیش کے سود و زیاں کو اپنا سود و زیاںسمجھنے والے فنکار کا مقصد معجزہ حُسن و عشق کو ایک کم تر، سطحی اور وقتی مادی تشفی سے اُٹھا کر ایسی تخلیقی رفعت عطا کرنا ہوتا ہے جو کثافت سے نجات اور لطیف احساسات سے آشنائی کا ذریعہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ’ادب برائے ادب‘ اور ’ادب برائے زندگی‘ کی بحثیں اب شاید اس لیے جوش و خروش کُھو چکیں کہ ان کو ا یندھی فراہم کرنے والی عالمی سیاسی چشمک اب کئی شکلیں بدل کر کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فن کبھی زندگی سے جُدا ہو ہی نہیں سکتا، ایک ادیب کی تخلیق کے پیچھے بھی زندگی کار فرما ہے اور اس تخلیق کی مخاطب اور اس کا ہدف بھی زندگی ہی ہوتی ہے۔ اپنے گرد و پیش‘ اپنے معاشرے سے جُڑا ہوا شاعر چنگ و رباب، جام و صبو اور شمشیر کو ہر وقت پیش نظر رکھتا ہے۔

    زیر نظر شعری مجموعہ ’قلم شعاعیں تراشتے ہیں‘ سرور جاوید کا دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ ان کی پہلی کتاب ’سر ِ محبس ِ شب‘ انہیں پہلے ہی صاحب کتاب ہونے کا امتیاز عطا کر چکی ہے۔ سرور جاوید کی شاعری سے تعلق استوار کریں تو جلد احساس ہو جاتا ہے کہ ان کا تعلق تخلیق کاروں کے اُسی قبیلے سے ہے جس کا تعارف کرانے کی سعی میں نے آغاز کی سطروں میں کی ہے۔ سرور جاوید خود اپنے تخلیقی سفر پر کچھ اس طرح نظر ڈالتے ہیں:

    ان کہے دُکھوں کا نوحہ

    کبھی وصال کی رنگیں رُتوں کو نظم کیا
    کبھی فراق کے آنسو غزل کئے میں نے
    بہت سے خواب لکھے، کتنی آرزوئیں لکھیں
    کبھی تو دشت لکھے وحشتوں کے موسم میں
    کبھی قرار جو آیا تو آبجوئیں لکھیں
    خزاں کے گیت لکھے، نغمہ بہار لکھا
    تمام عمر کے حاصل کو انتظار لکھا
    مگر وہ دُکھ کہ جنہیں میں رقم بھی نہ کر سکا
    وہ غم کہ جن کو سپرد قلم بھی نہ کر سکا

    سرور جاوید سابق بیوروکریٹ ہیں، تعلق بلوچستان سے ہے۔ اپنے صوبے اور وفاق میں ا ہم ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ اس سرکاری نظم و ضبط کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے تخلیقی اظہار میں بد دیانتی نہیں برتی اور جہاں شمشیر اُٹھانے کی ضرورت پڑی منہ نہیں پھیرا، یہ الگ بات کہ ان کا حرفِ انکار اور احتجاج سیاسی نعرہ نہیں بنتا۔ پاکستان کے سب سے زیادہ زخم زخم صوبے میں پروان چڑھنے والے اس شاعر نے بجا طور پر اپنے فن کے ذریعے اپنی مٹی کا حق ادا کیا ہے۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے سب سے زیادہ زخم بلوچستان نے سہے ہیں۔ اس المیے کا شعری پیرائے میں اظہار ہماری بے بسی اور فیصلہ سازوں کی بے حسی کی کیسی جھنجھوڑؑ کر رکھ دینے والی تصویر کشی کرتا ہے۔

    میری چیخیں سُن پائو گے
    غالب نے کہا تھا :
    ہوں گرفتار ِ الفتِ صیاد
    ورنہ باقی ہے طاقت پرواز
    سرور جاوید کی طاقت پرواز میں کبھی ضعف نہیں آیا ، کہتے ہیں:
    صراط عشق و جنون کی نظر سلامت رکھ
    اے آسماں کے خدا، بال و پر سلامت رکھ

    192صفحات پر پھیلے اس تخلیقی اظہار سے شناسائی حاصل کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اپنے ماحول اور ہم عصر انسانی برادری سے جُدا نہیں۔ ان کے قلم سے تخلیق پانے والے منظومات شعوری سطح پر اچھائی اور برائی کے درمیان لکیر کھینچتے نظر آتے ہے اور جد وجہد پر آمادہ کرنے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔ ان کا طرز اظہار اپنے صوبے اور ملک و قوم کو درپیش المیوں اور بے وفائیوں پر کَرب کے اظہار کے ساتھ اُمید کی شمع کو بجھنے نہیں دیتا۔

    کوئی قدغن کوئی پہرا کہاں ہے
    جنوں کا قافلہ ٹہرا کہاں ہے
    سوال وحشت عشاق دیکھو
    جو تھا زیر ِ قدم، صحرا کہاں ہے

    سرور جاوید کے اس دوسرے شعری مجموعے کو ایلاف پبلی کیشنز کوئٹہ نے شائع کیا ہے۔ مُجلد صورت میں شائع کی جانے والی اس کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ قیمت 800 روپے ہے۔رابطہ نمبر0333-2542237، 0300-9380994،۔

    سخت گھڑی ہے
    لاش پڑی ہے
    ماں روتی ہے

    لاش سرہانے
    دکھ سے گھائل
    باپ کھڑا ہے
    پوچھ رہا ہے
    کون مرا ہے

    لاش سے اک بھائی لپٹا ہے
    اور کہتا ہے
    پیارے بھائی!
    کیوں سوئے ہو
    کب جاگو گے

    اک بچی ہے
    بلک رہی ہے
    مجھ سے ایسا کر نہیں سکتا
    میرا بابا مر نہیں سکتا

    لوگ کھڑے ہیں
    دیکھ رہے ہیں

    میں شاعر ہوں
    لفظوں کا سنسار ہے میرا
    دُکھ کا کاروبار ہے میرا
    رنگوں کا بیوپار ہے میرا
    یہ مٹی ہے
    خاکی مٹی
    اس مٹی پر خون جما ہے
    سرخ چمکتا خون ہے کس کا

    شام ہوئی ہے
    ڈوبتا سورج
    پیلی کرنوں کی تلچھٹ ہے

    رات آئی ہے
    رات ہے کالی
    سارے سپنے توڑنے والی

    کیسے رنگ ہیں
    مل نہیں پاتے
    زخم ہیں کیسے
    سل نہیں پاتے

    لوگ کھڑے ہیں
    پوچھتا ہوں میں
    چپ کے جُرم میں شامل لوگو
    تخت نشینو!
    قاتل لوگو
    کیا تم ان رنگوں کو گوندھ کے
    پھر سے جیون بن پائوگے
    میں شاعر ہوں
    میری چیخیں سن پائوگے