جامعہ اردو؛ سلیکشن بورڈ کالعدم کرنا خلاف ضابطہ ہے، انجمن ترقی اردو کا وائس چانسلر کو خط

    کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے اساتزہ کی تقرریوں کے سلیکشن بورڈ کو کالعدم کرنے کا معاملہ پیچیدہ صورتحال اختیار کرگیا ہے اور انجمن ترقی اردو پاکستان نے اس معاملے پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ شنواری کو خط لکھ کر ان سے سلیکشن بورڈ کو کالعدم کرنے کے عمل کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے ان خطوط کی منسوخی اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ 

    واضح رہے کہ 8 مارچ کو یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے تین علیحدہ علیحدہ خطوط جاری کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کے دور میں کرائے گئے سلیکشن بورڈ سمیت دیگر فیصلوں کو کالعدم کرنے کے خطوط یہ اس تذکرے کے ساتھ جاری کیے گئے تھے کہ سینیٹ کے 20 فروری کے منعقدہ اجلاس میں پخش کی گئی۔

    رپورٹ کے ضمن میں مذکورہ فیصلوں کی منظوری دی گئی ہے۔ ادھر بتایا جارہا ہے کہ تاحال سینیٹ کے اجلاس کی روداد (منٹس) جاری کیے گئے ہیں نہ ہی سینیٹ میں کسی ایسی رپورٹ پر سلیکشن بورڈ کو کالعدم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ادھر انجمن ترقی اردو پاکستان کے صدر اور اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن نے وائس چانسلر کو بھیجے گئے اپنے خط میں اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بذات خود سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں موجود تھے۔

    مراسلے میں مزید کہا گیا کہ 2017/2013 کے 47 ویں سلیکشن بورڈ کے حوالے سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا جو یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ خطوط میں تحریر ہیں چونکہ اراکین کو اس بابت کوئی رپورٹ پیش ہی نہی کی گئی تھی لہذا فیصلے کو موخر کردیا گیا تھا۔

    انجمن ترقی اردو کے صدر نے اپنے اس دعوے کی دلیل کے طور پر خط میں مزید مزید کہا ہے کہ انھوں نے اجلاس میں شریک دیگر 7 سینیٹرز (شاہد شفیق، شکیل الرحمن، سعید اللہ والا،ڈاکٹر خالد انیس، ڈاکٹر حما بقائی، ڈاکٹر تنویر خالد اور ڈاکٹر فرحان شفیق)سے بھی اس سلسلے میں رائے لی ہے اور سب نے ہی یہی موقف اختیار کیا یے کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ سینیٹ میں نہیں ہوا تھا لہذا یہ خطوط غلط جاری ہوئے ہیں اور خلاف ضابطہ ہیں انھیں منسوخ اور ذمےداروں کے خلاف کارروائی کی جائے اگر ان خطوط کے سبب کوئی قانونی پیچیدگی یا توہین عدالت ہوئی تو اس کی ذمے داری رجسٹرار یونیورسٹی پر ہوگی۔

    واضح رہے کہ سلیکشن بورڈ کو کالعدم کرنے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وائس چانسلر گزشتہ ایک ہفتے سے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ و غیر تدریسی عملے پر محیط کراچی کے مرکزی کیمپس کے بجائے اسلام آباد میں ہیں۔