مکالماتی انداز میں سیرت نگاری

    اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کہہ کر ہر جاندار ، شجر حجر، جمادات، نباتات، حیوانات، حشرات الارض اور اشرف المخلوقات انسان پر واضح کر دیا کہ حضورِ اکرم نورِ مجسم ﷺ کا ذکر بلند کر دیا گیا ہے۔

    ازل سے ابد تک نبی مکرم ﷺ کا ذکر بلند سے بلند تر ہوتا رہے گا اور جو مخلوق چاہے کہ اسے بھی دنیا و آخرت میں عزت و عظمت نصیب ہو تو وہ نبی ِ مکرم ﷺ کا ذکر کرے۔مصور نبی آخر الزماں کے صفاتی اور ذاتی نام لکھ لکھ کر نبی اکرم کی تعریف کے نمونے قرطاس پر ثبت کر رہے ہیں۔

    نعت خواں، نعت رسول گنگنا کر دھومیں مچا رہے ہیں اور شاعر حضرات و خواتین نعت رسول مقبول تخلیق کر کے سیّدِ ابرار سے اپنی محبت اور والہانہ عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔

    نعت کے مجموعے، دیوان اور کلیاتِ نعت شائع ہو رہے ہیں اور ان میں ہزاروں اشعارِ نعت حضور اکرم ﷺ کی مدحت میں قرطاس پر سال ہا سال کے لیے ثبت ہو گئے ہیں۔ نثر نگار سیرتِ رسولِ اکرم ﷺ لکھ کر پیکر انوار کی تعریف میں مگن ہیں اور یہ سلسلہ حضور کی پیدائش سے آج تک جاری ہے اور تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔

    سیرت رسولِ اکرم ﷺ جہاں مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں وہاں ان کا انداز مختلف رہا ہے۔ ہر سیرت نگار کا انداز بھی جداگانہ رہا ہے کسی نے مسجع و مقفعٰ عبارت میں سیرت نگاری کی ہے اور کسی نے منظوم انداز میں سیرت لکھی ہے، مگر آج میرے پیش ِ نظر جو کتاب ہے اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کتاب مصر سے تعلق رکھنے والے ادیب ’’توفیق الحکیم‘‘ نے عربی زبان اور مکالماتی انداز میں لکھی تھی۔ جسے دنیائے عرب میں غیرمعمولی پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ انداز بڑا انوکھا تھا۔

    اس انوکھے انداز یعنی مکالماتی انداز کو اُردو دنیا میں رائج کرنے کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک ساتھی عبدالرزاق ملیح آبادی نے اسے اُردو میں ترجمہ کیا اور اُردو میں بھی مکالماتی انداز برقراررکھا۔

    توفیق الحکیم نے اس مکالماتی انداز کی سیرت کا نام ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘ رکھا اور عبدالرزاق ملیح آبادی نے بھی اسی نام سے اُردو ترجمہ کیا۔یہ کتاب پاکستان میں مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے شائع ہوتی رہی ہے جو سراسر ناشرانِ کتب کی غلط پالیسی تھی اس سلسلے میں کتب خانۂ سیرت کراچی کے مہتمم حافظ محمد عارف گھانچی نے تحقیق کر کے اس مسئلہ کو حل کیا اور اس کتاب کے مقدمے میں وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا۔

    ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ‘‘

    مذکورہ بالا آیت میں رسول اللہ ﷺ کے ذکر کو بلند کرنے کے سلسلے میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اشارہ فرما دیا گیا ہے اور آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ یہ سلسلہ چل رہا ہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔

    اِس سلسلے میں مختلف مواقع پر مختلف حالات و واقعات کو مد ِنظر رکھتے ہوئے ہمارے اسلاف مصنّفین و محققین نے اپنی اپنی کاوشوں کو مختلف انداز سے منصہ شہود پر لانے کی حتیٰ المقدور کوششیں کی ہیں، جن میں مختلف پیرایۂ اظہار کو اپناتے ہوئے نت نئے اسالیب کا سہارا لے کر افسانوی انداز، مکالماتی روش اور دیگر اصنافِ نظم میں بھی سیرتِ رسولِ اکرم ﷺ کو پیش کرنے کی سعی کی جاتی رہی ہے، کی جا رہی ہے اور تاقیامت کی جاتی رہے گی۔

    اِسی سلسلے کی ایک تحریر ہمارے سامنے ہے جو مصر سے تعلق رکھنے والے ادیب توفیق الحکیم کی قلمی نگارش ہے، یہ سیرتِ رسولِ اکرم کو مکالماتی انداز میں پیش کرنے کا عمدہ اور متاثرکن پیرایۂ اظہار ہے جو ’’محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)‘‘ کے نام سے عربی زبان کا پیکر لیے ہوئے ہے۔ یہ سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوئی اور اِس سے عربی زبان و ادب کا دامن مالا مال ہوا۔

    اِس سیرتِ رسولِ اکرم ﷺ کے انداز بیاںکی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اُردو کے ایک مایہ ناز مترجم عبدالرزاق ملیح آبادی نے اِسے اُردو کے قالب میں ڈھالا تاکہ اِس سے اُردو داں طبقہ بھی مستفید ہو سکے ۔ عبدالرزاق ملیح آبادی کے دوستوں میں معروف قد آور ادبی و مذہبی شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد بھی شامل تھے، کیوں کہ اُن کا شمار برصغیر پاک و ہند کی بڑی ادبی اور مذہبی شخصیات اورجید اہل قلم میں ہوتا ہے۔

    عبدالرزاق ملیح آبادی کے اِس اُردوترجمے کو مختلف ادوار میں مختلف ناشران نے شائع کیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ناشران نے سہواً یا عقلاً عبدالرزاق ملیح آبادی کا نام حذف کردیا اور اِس مکالماتی انداز کی سیرت پر مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بہ حیثیت ترجمہ نگار لکھ دیا گیا۔

    عقلاً اِس لیے لکھ رہا ہوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا نام عبدالرزاق ملیح آبادی سے زیادہ مشہور اور اُن سے زیادہ تصانیف و تالیفات کے حوالے سے سامنے آتا رہا ہے اِس لیے ناشران نے سوچا ہوگا کہ یہ نام بڑا ہے اور اِس نام کے حوالے سے کتاب کی فروخت پر اچھا اور زیادہ اثر پڑے گا۔ اِس طرح یہ کتاب مولاناابوالکلام آزاد کے کھاتے میں چلی گئی، لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی، میں کتاب پر مولاناابوالکلام آزاد کا نام دیکھ کر خاموش رہا، مگر میں نے اصل حقیقت کی کھوج جاری رکھی۔

    اِس سلسلے میں حقیر و فقیر (حافظ محمد عارف گھانچی) نے ڈاکٹر پروفیسر مولانا محمد یٰسین مظہر صدیقی دامت برکاتہم عالیہ سے دریافت کیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اِس طرف توجہ دلائی اور ثابت کیا کہ یہ ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کا نہیں ہے، مگرکسی سبب سے اُن کے نام سے منسوب ہو گیا ہے۔

    توفیق الحکیم کی سیرتِ رسولِ اکرم ﷺ کی عربی کتاب ’’محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اُن کے نام سے شروع شروع میں شائع ہوا جب کہ اِس پر دیباچہ بھی عبدالرزاق ملیح آبادی کا لکھا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی1942ء میں ہندوستان سے شائع ہونے والی کتاب کو دیکھا جاسکتا ہے جس کے ناشر’’ہند پریس کلکتہ‘‘ ہیں۔

    ناشرین کے سہو سے یہ ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے منسوب ہو گیا۔ پھر قارئین نے بھی اِس چلن اور سہو کو درست سمجھ لیا، کیوں کہ کتاب پر جس مترجم یا مصنف و مؤلف یا مدون و مرتب کا نام ہوتا ہے وہ اُسی کی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔تحقیق کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

    پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد یٰسین مظہر صدیقی کی تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے کہ یہ ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے۔ اِسی تحقیق کی روشنی میں اب اِس مکالماتی انداز کی سیرتِ رسول ﷺ کو ایک طویل مدت کے بعد اصل مترجم عبدالرزاق ملیح آبادی کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے تاکہ حق دار کو اُس کا حق مل سکے اور اصل روایت اور تحقیق سامنے آسکے اور آئندہ سیرتِ رسولِ اکر م ﷺ کے قارئین، ناقدین، مشاہیر، تاریخ داں، معلم اور محققین کو کسی قسم کی دُشواری اور غلط فہمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    توفیق الحکیم کی تالیف کردہ کتابِ سیرت’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘کے دیگر اُردو تراجم بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں جن میں ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب صاحبہ کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے اپنے اُردو ترجمے میں کچھ اضافے بھی کیے ہیں۔ عبدالرزاق ملیح آبادی کا انداز بیان دل موہ لینے والا ہے اور اِن شاء اللہ اِس کی خوب صورت اشاعت اور متاثر کن مواد اُردو ادب کے قارئین کو مطالعے کی طرف راغب کرے گا اور یہ قارئین کیساتھ ساتھ ناشران کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا اور مسلمانانِ عالم اسلام خصوصاً محبانِ سیرتِ رسول ﷺ کا ایک بڑا حلقہ اِس سے مستفید ہوتا رہے گا، اور یہ کتبِ سیرت کے ذخیرے میں بھی اضافہ کرے گا، کیوں کہ یہ ایک انوکھے اور منفرد انداز میں ترجمہ کی گئی کتاب ہے جس میں مکالماتی انداز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

    قابل مبارک باد ہیں اِس کتاب کے ناشر شاعر علی شاعر جنھوں نے اِسے اپنے معروف اشاعتی ادارے ’’رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی‘‘ سے شائع کرنے کا اہتمام کیا اور اُس وقت تک قدم آگے نہ بڑھایا جب تک تحقیق سے اصل مترجم کانام ثابت نہیں ہو گیا۔ اب وہ بڑے انتظام و انصرام اور والہانہ عقیدت سے اِسے زیورِ طباعت سے آراستہ کرنے کی کوشش میں مصروف و مگن ہیں۔اِس نسخے کو فراہم کرنیوالی معروف ادبی شخصیت گل محمد شاہ بخاری کیلئے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت اُن کی مغفرت فرمائے اور اِس کارِ خیر کو ہم سب کیلئے وسیلۂ مغفرت اور سامانِ بخشش بنائے۔ (آمین)