دہشت گردوں کیخلاف بے رحم کارروائی ناگزیر

    آج مُلک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہم آہنگی پائی جاتی ہے—(فوٹو: فائل)

    آج مُلک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہم آہنگی پائی جاتی ہے—(فوٹو: فائل)

    صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے کسی دہشت گرد گروپ کو برداشت نہیں کریں گے، قوم مایوس نہ ہو، ہم پاکستان کو معاشی لحاظ سے مضبوط اور خود کفیل بنانے کے لیے پُر عزم ہیں۔ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے یوم پاکستان کی مناسبت سے ہونے والی پریڈ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    صدر مملکت نے صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، گو دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو آئی ہے لیکن دہشت گردوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود ہے، لٰہذا دہشت گردوں کے حملہ کرنے کی صلاحیت کا دوبارہ جائزہ لے کر نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، بالخصوص مقامی سہولت کار کا قلع قمع ضروری ہے۔

    دوسری جانب پاکستان کے اندر سیاسی عدم رواداری کے باعث صوبوں کے مابین نیشنل ایکشن پلان اور دیگر سیکیورٹی کے معاملات میں بھی مفاہمت کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی دہشت گردوں کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے۔

    بعض مذہبی، سیاسی جماعتیں جو ان تنظیموں کے کاز کو اپنے قول سے سہارا دیتے آئی ہیں، ان پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے۔ اکثر علماء اس با ت پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ جہاد کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔ کوئی بھی انفرادی طور ریاست کے اندر سے ریاست کے اجازت کے بغیر دوسرے ممالک یا ملک کے اندر جہاد کی آڑ میں قتل و غارت نہیں کرسکتا۔ ریاست ہی یہ طے کرے گی کہ کب جہاد کرنا ہے۔

    دہشت گرد گروپس جنھیں غیر ریاستی عناصر بھی کہا جاتا ہے، ان کی وجہ سے مستقبل میں عالمی سیکیورٹی کے مسائل کسی آزمائش سے کم نہیں ہیں، جیسا کہ اگلے روز روس کے دارالحکومت ماسکو میں ایک کنسرٹ ہال کے اندر موجود دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں 143 افراد ہلاک اور ایک سو بیس افراد زخمی ہوگئے، دہشت گردی کے واقعات کے علاوہ اور بہت سے تنازعات کا بیج بویا جا رہا ہے اور جب ان کی فصل پکے گی تو عالمی امن کی کیا صورتحال ہوگی؟ اس کی ایک جھلک پولیٹیکل سائنٹسٹ James G. Blight  اور سابق امریکی ڈیفنس سیکریٹری Robert McNamara  کی اس پیش گوئی سے واضح ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں دنیا بھر میں جنگوں سے وابستہ اموات کی تعداد اوسطً30 لاکھ سالانہ تک ہو سکتی ہے۔

    ایک طرف غیر ریاستی عناصر ہیں تو دوسری جانب حکومتیں خود بھی براہ راست جارحیت میں ملوث ہیں جیسا کہ اسرائیل جارحیت کی وجہ سے غزہ کی آبادی درد ناک حالات سے گزر رہی ہے اور غزہ کے باشندوں کو ہلاکتوں کی تعداد اور اندیشوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہر روز جن تین چیزوں کا سامنا ہے وہ بمباری، بھوک اور نقل مکانی ہے۔

    قیدیوں کے تبادلے کے عوض جنگ بندی کی تلاش جاری ہے تاکہ چاہے عارضی ہی سہی لیکن سب کی پریشانیاں حل ہوں، جب کہ رفح کراسنگ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے امدادی سامان کے قافلے داخل ہو سکتے ہیں لیکن مہاجرین اس کے ذریعے فرار نہیں ہو سکتے۔

    امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے پرتشدد اسرائیلی بمباری کی گونج میں ایک بار پھر اس تشدد کے چکر سے نکلنے کا واحد راستہ دو ریاستی حل اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو قرار دیا ہے، جب کہ اس بمباری میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہو رہے ہیں۔

    یہاں یہ اَمر باعثِ اطمینان ہے کہ آج مُلک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، دراصل ریاست کو جہاد کی ذمے داری سونپی گئی ہے، لیکن اس کا نفاذ تبھی ممکن ہے کہ جب مُلک میں غیر ریاستی عناصر کا کردار مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ ہمیں اس نکتے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ غیر ریاستی عناصر نے نہ صرف ہمارے ہم وطنوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

    ایک رپورٹ جو امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کی طرف سے شائع ہوئی تھی، جس میں اب تک پاکستان میں تعلیمی اداروں پر ہونے والے لگ بھگ سیکڑوں حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جس کے مطابق تعلیمی اداروں پر دہشت گردی سے ہلاکتوں میں پاکستان نمبر ایک ہے۔ گلوبل ٹیرر ازم ڈیٹا بیس کے چالیس سالہ ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں تعلیمی اداروں پر حملوں کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان حملوں میں سب سے زیادہ خطرناک پشاور کا حملہ تھا جو دسمبر2014ء میں ہوا تھا۔

    اس وقت چین کے امریکا سے نہایت قریبی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کا حجم اربوں ڈالرز میں ہے۔ نیز، دونوں ممالک کے رہنما بھی ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔ چین اور بھارت بھی کئی بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

    تاریخ کے اوراق پلٹیں تو نائن الیون کے واقعات تک پاکستان و افغانستان کی مشترکہ سرحدیں بالکل خاموش تھیں اور کسی قسم کی فوجوں کی تعیناتی کا کوئی خواب و خیال بھی نہیں تھا۔ اس پرسکون سرحد نے سوویت یونین کی در اندازی کے خلاف بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ مجاہدین نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو استعمال کرتے ہوئے مکمل تربیت، بھرتیاں اور تمام امداد کھلے عام حاصل کی۔

    نائن الیون کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور امریکیوں نے اپنے اتحادیوں کی معیت میں القاعدہ اور اس کے مدد گار طالبان کو کچلنے کی خاطر افغانستان پر چڑھائی کر دی جب کہ ان طالبان کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر پاکستان کے قبائلی علاقہ یعنی فاٹا نے خاصی شہرت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے ڈھانچے اور روابط کو دوبارہ مجتمع کیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ سرحد کے آر پار دراندازی اور عسکری کارروائیوں کی روک تھام کے لیے پاکستان کو یہاں بھی اپنی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ کرنا پڑا۔

    ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب یہی پشتون قبائل آباد ہیں۔ مشترکہ سرحد سے جہاں ریاستوں کے درمیان تجارتی اور ثقافتی روابط بھی بڑھتے ہیں وہاں غیر قانونی سرگرمیوں، انسانی تجارت اور اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    پاک افغان سرحد تو اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ کی جنت خیال کی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ بھی دیکھنے میں آیا ہے جہاں انسانی آمدو رفت عروج پر ہے۔ ان سرحدوں پر نرم قوانین کی وجہ سے مختلف گروہوں نے اپنے نظریات، انسانی ذرائع، ہتھیار اور مشینری کو آسانی سے آر پار منتقل کیا۔یہ تنازعات مذہبی، لسانی، گروہی اور قومیت کی بنیاد پر مختلف ممالک کے درمیان ایک تسلسل سے نظر آتے ہیں۔

    جنوبی ایشیاء میں ان دیرینہ مسائل نے ریاستوں کے سرحدی علاقوں میں سر اٹھایا۔ ان تحریکوں کے بیرونی ممالک سے خفیہ رابطے تھے جنھوں نے ان کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں بھر پور تعاون کیا اور اس وقت جب کہ جنوبی ایشیا گھمبیر سرحدی مسائل سے دو چار ہے یہ تحریکیں بھی اڑوس پڑوس سے اپنے رابطوں کو مضبوط کرتی نظر آتی ہیں۔ ’’راب جو ہنسن‘‘ کی رائے کے مطابق چار بنیادی عوامل نے ان تنازعات کے سلگتے شعلوں پر مزید ایندھن کا کام کیا۔

    ان میں سب سے اہم وجہ جمہوریت کی ثقافت کا فقدان تھا اور ہر سطح پر کرپشن کے عفریت نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ غربت اور جہالت بھی اپنا کردار خوب نبھا رہی تھی۔ جو ہنسن نے مذکورہ تمام عوامل کو ہر تنازعے کی جڑ قرار دیا ہے۔ بنیادی طور پرگروہی، مذہبی اور ثقافتی پہچان نے انتہا پسندی کی بنیاد رکھی جس نے رفتہ رفتہ مکمل طور پر اپنا قبضہ جما لیا۔ مذہب بھی بدستورکلیدی کردارکے طور پر موجود رہا۔

    جہاں تک ان قوتوں کے ڈھانچے کا تعلق ہے تمام علیحدگی پسندوں اور باغی تحریکوں میں انتہا پسندانہ نظریات کو اپنانے کے رجحانات بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔ یہ اپنے ایجنڈے کو مقبول عام بنانے کے لیے تمام منفی اور تخریبی سرگرمیوں پر عمل پیرا ہونے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی کی تحریکوں کی وجہ سے ریاستوں کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ریاستوں کے درمیان سرحدی جھگڑے ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

    کشمیر کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعے کی بنیاد پر ہی وجہِ نزاع ہے۔ دُنیا میں اقتصادی طور پر طاقتوَر ممالک کی بات مانی جاتی ہے اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے مُلک کے معاشی استحکام کو اپنی پالیسی کا محور بنایا ہے اور عالمی جرائد اور مالیاتی اداروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومتِ پاکستان کی اقتصادی پالیسی کی سمت دُرست ہے۔

    نیز، اس میں مزید اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اب صنعتوں کا پہیہ چلنے کو بنیاد بناتے ہوئے مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو ترقی دینے کی ضرورت ہے، جس کے بے حس و بے حرکت ہونے کی وجہ سے ہمیں بے روزگاری جیسا خوف ناک چیلنجز درپیش ہے اور روزگار نہ ملنے کے سبب پاکستانی نوجوان، جن کا مُلک کی آبادی میں ایک بڑا حصہ ہے، جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔

    اب سیاست دانوں کو اپنے کھوکھلے نعروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ یہ سوشل میڈیا کا دَور ہے اور عوام کو صرف وعدوں کا ’’لالی پاپ‘‘ دینے پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی صرف ملکی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی ممکن ہے اور پاکستان کے اندر اب بے رحم کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔