عام انتخابات: تین خواجہ سرا بھی میدان میں آگئے

     لاہور: پاکستان میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں جہاں بڑی تعداد میں مرد و خواتین امیدوار میدان میں ہیں، وہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کے چار حلقوں میں تین خواجہ سرا الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

    پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا نایاب علی قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 46 اور 47 سے امیدوار ہیں، پاکستان میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والی یہ واحد خواجہ سرا ہیں جبکہ دو خواجہ سرا خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

    نایاب علی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا انتخابی نشان سبز مرچ ہے۔ ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے نایاب علی نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہیں جن کے پاس وسائل ہوں، وہ اپنے حلقے میں موثر اثر و رسوخ رکھنے والا ہو اور اس کی کامیابی کا بھی امکان ہو۔ تو ان حالات میں جب ہمارا معاشرہ ہی ابھی مکمل طور پر خواجہ سراؤں کو قبول نہیں کر رہا تو کوئی سیاسی جماعت انہیں کیسے قبول کرے گی اور ٹکٹ دے گی۔

    نایاب علی کا کہنا ہے کہ جس طرح خواتین اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں اسی طرح خواجہ سراؤں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشست ہونی چاہیے۔ یہی وہ طریقہ سے جس سے خواجہ سراؤں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہوسکتی ہے۔

    پاکستان میں اس وقت خواجہ سراؤں کی کل آبادی 10ہزار 418 ہے تاہم خواجہ سرا برادری اس تعداد کو تسلیم نہیں کرتی۔ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 21 ہزار 774تھی جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں 3 ہزار 29 خواجہ سرا ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب سے 1886، سندھ سے 431، خیبر پختونخوا سے 133، بلوچستان سے 81 اور قبائلی علاقوں سے سات ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے خواجہ سراؤں کی الگ فہرستیں بھی نہیں بنائی گئیں، خواجہ سراؤں کی اکثریت کے نام مردوں کی فہرستوں میں شامل ہیں کیونکہ ان کے شناختی کارڈ پران کی جنس ایکس کے بجائے، ایکس (مرد) لکھی ہوئی ہے۔

    لاہور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا گورو نیلی رانا نے 2018 کے انتخابات کا بطور آبزور مشاہدہ کیا تھا۔ نیلی رانا کا کہنا ہے الیکشن لڑنے کے لئے کروڑوں روپے چاہیں خواجہ سرا برادری کی اکثریت بھیک مانگ کر پیٹ پال رہی ہے تو ایسے حالات میں الیکشن کون لڑے گا، انہوں نے کہا سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات کرتی ہیں لیکن یہ سب دکھاوا ہے۔

    نیلی رانا کا کہنا ہے کسی بھی سیاسی جماعت کی مرکزی، صوبائی تنظیم میں کوئی خواجہ سرا نہیں ہے، جو سیاسی جماعتیں انہیں اپنی پارٹی میں کوئی اہم عہدہ نہیں دیتیں وہ انہیں اسمبلی میں کیسے برداشت کرسکتی ہیں۔

    لاہور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا جنت علی کا کہنا ہے خواجہ سراؤں کے مسائل کی ترجمانی ایک خواجہ سرا سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا، لیکن موجودہ انتخابی طریقہ کار میں ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ کوئی خواجہ سرا اسمبلی میں پہنچ سکے۔ جمہوریت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن خواجہ سراؤں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا جس طرح خواتین، اسپیشل پرسنز، اقلیتوں کے مسائل کی بات کی جاتی ہے ان کے لئے اسپیشل کوٹہ مقرر ہے اسی طرح ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لئے بھی اسپیشل کوٹہ مقرر ہونا چاہیے۔

    خواجہ سراؤں کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کی ایک وجہ باہمی رابطوں کا فقدان بھی ہے۔ خواجہ سرا نایاب علی کہتی ہیں کہ الیکشن مہم کے دوران جب وہ لوگوں کے پاس جاتی ہیں تو بعض لوگ انہیں بھکاری سمجھتے ہیں، خواجہ سراؤں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی شاید یہی سمجھتی ہیں کہ اگر وہ کسی خواجہ سرا کی حمایت کریں گی یا اسے ٹکٹ دیں گی تو مخالفین ان کا مذاق اڑائیں گے، طنز کریں گے۔ اس کی وجہ ہمارے سماجی رویے ہیں، ان رویوں میں تبدیلی کے لیے جہاں کمیونٹی کے نمائندے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں وہیں سیاسی جماعتوں کو بھی آگے آنا ہوگا۔

    فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے نیشنل کوآرڈنیٹر راشد چوہدری نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا معاشرے میں خواجہ سراؤں کی قبولیت ہونے لگی ہے، خواجہ سرا امیدوار بھی ہیں اور ووٹرز بھی ہیں۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ 2018 کے انتخابات میں کافی زیادہ خواجہ سراؤں نے حصہ لیا تھا جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ سے تھا۔ ان میں سے کئی خواجہ سرا لوکل باڈیز الیکشن میں منتخب ہوئے تھے۔ تاہم موجودہ انتخابات میں ان کی تعداد کافی کم ہے۔

    انہوں نے کہا سیاسی جماعتیں ہمیشہ ایسے امیدواروں کو ہی ٹکٹ دیتی ہیں جن کی کامیابی کی امید ہوتی ہے، خواجہ سراؤں کا حوالے سے دیکھا جائے تو ابھی شاید ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کرسکیں لیکن اس پریکٹس سے وہ لوکل باڈیز الیکشن کے لئے اپنی جگہ ضرور بنال یتے ہیں۔

    ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو ایک کمزور، بزدل اور نااہل فرد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بعض سیاستدان مخالفین کو طعنہ کے طور پر خواجہ سرا اور ہیجڑا جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں خاص طور پر شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان، بلاول بھٹو زرداری متعدد بار ذو معنی جملے استعمال کرتے رہے ہیں۔ شیخ رشید تو کھلم کھلا بلاول بھٹو کو بلو رانی کہتے ہیں۔

    لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں شعبہ عمرانیات کی سربراہ ڈاکٹر اسما سیمی ملک کہتی ہیں خواجہ سراؤں سے متعلق ایسا رویہ افسوناک ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ اگرخواجہ سراؤں کو سیاست میں قبول کیا جاتا ہے تو وہ ناصرف اپنی کمینٹی بلکہ معاشرے کے دیگر طبقات کی بہتری اور ویلفیئر کے لئے اچھا کام کریں گے۔

    خواجہ سراؤں کو ان کے بنیادی حقوق اور قبولیت نہ ملنے کی ایک وجہ معاشرے میں اس کمیونٹی سے متعلق پائے جانے والے شکوک وشبہات بھی ہیں۔ کسی عام شخص کے لئے خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    برتھ ڈیفیکٹس فاؤنڈیشن کے چیئرمین عنصر جاوید کہتے ہیں کہ ہمیں انٹرا سیکس اور ٹرانس جینڈر میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

    ایسے بچے جو پیدائشی طور پر جنسی اعتبار سے کچھ نقص کیساتھ پیدا ہوں انہیں انٹرسیکس یعنی ہیجڑا، کھسرا اور خواجہ سرا کہتے ہیں جبکہ ایسے افراد جو سرجری، ادویات اور ہارمون تھراپی کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کرتے ہیں انہیں ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد اصل میں مکمل عورت یا مکمل مرد ہوتے ہیں لیکن یہ مصنوعی طریقوں سے اپنی جنس بدل لیتے ہیں ایسے افراد کے لئے خواجہ سرا کا لفظ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی اداروں کے لئے یہ جانچ کرنا مشکل ہے کہ پاکستان میں درست طور پر خواجہ سراؤں کی تعداد کتنی ہے۔

    The post عام انتخابات: تین خواجہ سرا بھی میدان میں آگئے appeared first on ایکسپریس اردو.