خسارے سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔۔۔ ؟

    پروردگارِ عالم اپنے کلامِ پاک میں ارشاد فرما رہا ہے، مفہوم: ’’عصر کی قسم! بے شک انسان گھاٹے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کرتے رہے اور آپس میں حق کا حکم اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔‘‘ (سورۂ مبارکہ والعصر)

    اس سورہ کو ’’سورۂ جامع‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایمان، عملِ صالح، حق کہنے کی جرأت اور حق سننے کا حوصلہ۔ صبر کرنے کی طاقت اور معاشرے کو استقامت کا پیغام دینے کا حوصلہ، صلاحیت۔ جو لوگ ان چار نکات پر عمل کرلیں، وہ نقصان میں نہیں جاتے۔

    سورۂ مبارکہ والعصر قرآنِ مجید کا مختصر اور چھوٹا سورہ ہے، مگر یہ کب طے ہے کہ جو مختصر ہو، یا دُنیا جسے کم زور سمجھے، اﷲ بھی اسے کم زور جانے۔ نظامِ الہٰی اور نظامِ بشریت میں ایک واضح فرق یہ ہے، دُنیا جسے ناتواں سمجھتی ہے، دُنیا جسے کم زور سمجھتی ہے، اﷲ اُسی میں اپنی طاقت کو ودیعت کردیتا ہے۔ کبھی بھی کسی کم زور کو دیکھ کر اُسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ حقیر اور ہے، کم زور اور ہے۔ ساری دنیا جسے حقیر، فقیر، مسکین، پھٹے کپڑوں میں ، مفلوک الحال سمجھتی ہے، حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ’’اﷲ نے اپنے ولیوں کو فقیروں میں چھپا رکھا ہے۔‘‘

    یہ دُنیا کا دستور ہے کہ وہ ظاہر داری کو اہمیت دیتی ہے، اور اﷲ باطن کو اہمیت دیتا ہے۔ جس کا باطن پاک ہو، ظاہری طور پر اگر وہ صاف نہ بھی دکھائی دے رہا ہو، تو اُس کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہے۔ سورۂ عصر کے مطالب پہ غور کیجیے۔ اﷲ زمانے کی قسم کھا رہا ہے ۔ یہ کون سا زمانہ ہے، جو قابلِ قسمِ پروردگار قرار پا رہا ہے۔ قسم اِس وجہ سے کھائی جاتی ہے تاکہ اپنی بات میں اعتبار بڑھایا جائے۔

    ہم اپنی بات کو معتبر بنانے کے لیے مقابل کے سامنے کسی کی قسم کھا کر اُسے معتبر بناتے ہیں۔ اﷲ کو اِس کی ضرورت نہیں تھی۔ ساری دُنیا اﷲ کی بات مانے، تو دُنیا کا فائدہ ہے، نہ مانے تو اﷲ کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اﷲ کو ضرورت نہیں تھی کہ اپنی بات میں اعتبار بڑھانا مقصود ہو، بل کہ وہ زمانہ ہی اِس قابل ہے کہ ہمیں متعارف کرانا مطلوبِ الہٰی تھا۔

    اﷲ ہر ایک کی قسم نہیں کھاتا۔ کوئی اتنا معتبر ہوجائے کہ پروردگار اُس کی قسم کھائے، تو ہمیں غور کرنے کی دعوت ہے کہ غور و فکر کرو۔ وہ کیا وقت ہے کہ جس کی قسم اﷲ کھا رہا ہے۔ کبھی ذاتِ کبریا نے صبح کی قسم کھائی، جب وہ سانس لیتی ہے۔ کبھی پروردگارِ عالم نے رات کی قسم کھائی۔

    زمانہ بہ جائے خود قابلِ تعریف ہے نہ قابلِ مذمّت ہے۔ کوئی واقعہ، کچھ حالات و واقعات ہوتے ہیں ، جو اُس زمانے سے جُڑ جاتے ہیں، جو انھیں قابلِ تعریف بنا دیتے ہیں اور قابلِ مذمّت بھی بنا دیتے ہیں۔

    اب اگر اﷲ صبح کی قسم کھا رہا ہے، اب اگر اﷲ دوپہر کی قسم کھا رہا ہے، تو ذاتی طور پر نہ رات قابلِ اعتبار ہے، نہ دوپہر قابلِ اعتبار ہے، نہ صبح کی کوئی حیثیت ہے۔ ہمیں تاریخ کے صفحات میں ڈھونڈنا ہوگا۔ اب کوئی عصر بھی ہے، یہ وقتِ عصر نہیں، جس میں اِس وقت ہم نَفَس لے رہے ہیں، یہ عصر ہے۔ اﷲ عصر کی قسم نہیں کھا رہا۔ تحقیق کریں کہ کوئی وقتِ عصر، جو قابلِ قسمِ پروردگار قرار پایا۔

    بعض اوقات اگر فرق دِکھائی دے رہا ہو، تو ہر فرق تضاد نہیں ہوتا۔ مرد اور عورت میں فرق ہے، تضاد نہیں ہے۔ دن اور رات میں فرق، تضاد نہیں ہے۔ ہر فرق متصادم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر یہاں پر اﷲ والعصر کہہ کے عصر کی قسم کھا رہا ہے، تو تیئس برس کا عصرِ پیغمبرؐ بھی مراد ہے۔

    تیرہ برس کی مکّی زندگی اوردس برس کی مدنی زندگی، تیئس برس کا عصرِ پیغمبر ﷺ، اﷲ اُس کی قسم کھا رہا ہے۔ ایک جملہ آپ کے قابلِ قدر ذوقِ آگہی کی نذر کروں، ہمیں کوئی نظام نہیں چاہیے الجھنوں اور مشکلات سے بچنے کے لیے، ہمیں بس نظامِ مصطفویؐ چاہیے۔ تمام تر مشکلات کا حل نظامِ مصطفویؐ میں پایا جاتا ہے۔

    کون سی چیز ہے، جو اﷲ کے رسول ﷺ نہیں دے کر گئے ۔ اﷲ کے پیغمبر ﷺ نہیں دے کر گئے۔ عصرِ پیغمبرؐ سے ہمیں جامع ترین حیات ملتی ہے۔ ایک کو نبی مکرّم ﷺ کی حیات کہتے ہیں، ایک کو امام حسینؓ کی حیات کہتے ہیں۔ اب وہ حدیث واضح ہوجاتی ہے: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘

    عصرِ پیغمبرؐ قیامت تک کے لیے راہ نما، پیشوا، ہادی ہے۔ کیا تعلق ہے قسمِ عصر کا انسان کے خسارے سے؟ تعلق یہ ہے کہ تمھیں اگر خسارے سے بچنا ہے تو عصرِ پیغمبرؐ کو اپنے لیے اُسوۂ حسنہ بنالو۔ عصرِ پیغمبر ؐ تمھیں تمام تر اُلجھنوں اور مشکلات سے نجات عطا کرے گا۔

    اسلامی معاشرے میں ایک شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ اگر اسے چند جملوں میں اور چند آیات و فقروں میں محسوس کرنا ہو، تو سورۂ والعصر کی تلاوت کرلی جائے۔ یہ سورہ ایک مسلمان شخصیت، ایک مسلمان خاص فرد کی راہ نمائی کرتا ہوا دِکھائی دیتا ہے کہ کس طرح اُسے جینا چاہیے۔

    اگر کسی کو دِین داری کا نصاب مرتّب کرنا ہے تو وہ سورۂ مبارکہ عصر کا مطالعہ کرے۔ یہ یقیناً دین داری کا ایک مختصر، جامع اور مکمل نصاب ہے۔ اِس پہ عمل کرنے والے ہی در حقیقت دِین دار ہیں۔ سورۂ مبارکہ والعصر، اسلامی معاشرے میں شخصیت کا کردار، یہ سورہ ایک کام یاب ترین مسلمان اور موحّد شخصیت کے اُصولوں کو مرتّب کررہا ہے۔

    ’’قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے۔ اِلَّا اُن لوگوں کے، جو صاحبانِ ایمان ہَوں، عملِ صالح کرنے والے ہَوں، حق کہنے اور سننے کی جرأت اور حوصلہ رکھتے ہَوں ۔ صبر کرکے دِکھاتے ہَوں اور صبر کی تلقین کرتے ہَوں۔‘‘

    اﷲ ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا جس کا اﷲ سے تعلق تو گہرا ہو، مگر اﷲ کی مخلوق سے اُس کا تعلق نہ ہو۔ وہ مسلمان نہیں ہے، کہ جو عبادت گزارِ الہٰی تو ہے، مگر خدمت گزارِ مخلوق نہ ہو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر انسان اﷲ کی بارگاہ میں بھی سجدہ ریز ہو اور مخلوقِ الہٰی کا بھی خدمت گزار ہو۔

    اِس سورۂ مبارکہ میں چار باتوں کی راہ نمائی کی گئی ہے۔ ایمان اور عملِ صالح، حق اور صبر کی تلقین۔ پہلی دو چیزوں کا تعلق اﷲ سے بندے کا ہے۔ بندے کا اﷲ سے ہے۔ اور دوسری دو چیزوں کا تعلق بندے کا بندوں سے ہے۔

    ایمان کا تعلق میرا، میرے اﷲ کے ساتھ ایک تعلق ہے۔ ایک رابطہ ہے ، ایک واسطہ ہے، اِک ربط ہے۔ دوسرا مرحلہ عمل ِصالح کا ہے، مگر جو دو بعد کے مرحلے ہیں تیسرا اور چوتھا مرحلہ، وہ بندوں کا بندوں سے تعلق ہے۔ وہ انسان کیسے مسلمان کہلائے، جسے یہ نہ معلوم ہو کہ معاشرے میں کیا ہورہا ہے؟ حالات کیسے ہیں؟ معاملات کیا ہیں؟ مشکلات کیا ہیں؟ پریشانیاں کیا ہیں؟

    مسلمان، مسلمان سے لاتعلق ہو، اﷲ ایسے مسلمان کو پسند نہیں کرتا۔ جب اﷲ کے ہاں سے انسان دُنیا میں قدم رکھتا ہے، یہ بچّہ جو آپ کی، ہماری آغوش میں آتا ہے، یہ وہاں سے تین چیزیں لے کر آتا ہے۔ ایک یہ بدن لے کر آتا ہے، ایک یہ رُوح لے کر آتا ہے اور یہ تعلقات لے کر آتا ہے۔ لہٰذا یہ تین چیزیں لے کر آیا ہے۔

    ایک یہ بدن لے کر آیا ہے، جب اﷲ کے ہاں سے دنیا میں اِس نے قدم رکھا، اِس بچے نے، اِس انسان نے، جو کل بچّہ تھا، آج کا یہ جوان ہے، آج کا یہ بزرگ ہے، آج کا یہ بوڑھا ہے، آج کا یہ عالم ہے، آج کا یہ ڈاکٹر ہے، آج کا یہ انجینیر ہے، کچھ بھی ہو۔ مگر یہ پیدائشی عالم نہیں ہے۔ لیکن معمولاً جن لوگوں کا تذکرہ ہے، جن انسانوں سے اﷲ مخاطب ہے، وہ جب دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں، یا بدن لے کر آئے ہیں، یا وہ رُوح لے کر آئے ہیں، یاوہ تعلقات لے کر آئے ہیں۔ بدن کی غذا کو ’’عملِ صالح‘‘ کہتے ہیں۔ رُوح کی غذا کو ’’ایمان‘‘ کہا جاتا ہے اور تعلقات کی غذا کو ’’حق کی نصیحت‘‘ اور ’’صبر کی تلقین‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب اﷲ چاہتا یہ ہے کہ مسلمان اپنے فریضے کو ادا کرے۔

    اُستادِ محترم حضرت علاّمہ سیّد ذیشان حیدر جوادیؒ اپنے ترجمۂ قرآن بہ عنوان ’’انوارالقرآن‘‘ میں سورۂ عصر کے حاشیے میں کیا خوب رقم طراز ہیں: ’’انسان حقیقی اور اضافی اعتبار سے تین چیزوں کا مالک ہے، رُوح، جسم اور تعلقات و اِرتباطات۔ دینِ اسلام نے واضح طور پر اِس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ رُوح خسارے میں ہے جس میں ایمان نہیں ہے اور وہ جسم خسارے میں ہے جس کا عمل صالح نہیں ہے اور وہ روابط و تعلق خسارے کی بنیاد ہیں جن کی اَساس صبر و حق کی وصیت و نصیحت پر قائم نہیں ہے اور اس تمام خسارے کا زمانہ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں خسارے والوں کی اکثریت رہی ہے اور فائدے والے صرف استثنائی حیثیت کے مالک رہے ہیں۔‘‘

    The post خسارے سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔۔۔ ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.