سیاسی پارٹیوں کے پرچموں کا فلسفہ کیا ہے…؟

    زمانہ جاہلیت میں جب دنیا کی سب سے قیمتی چیز زندگی بھی کچھ اہمیت نہ رکھتی تھی، اس دور میں بھی پرچم کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پرچم کا سب سے پہلا استعمال جنگوں میں ہوا۔

    میدان جنگ میں پرچم کو عسکری روابط کے لئے استعمال کیا گیا اور یہ سلسلہ دور جدید میں بھی جاری ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف رنگوں سے مزین یہ کپڑے کا ٹکڑا اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ آج یہ کسی بھی ملک یا قوم کی ثقافتی اور سیاسی پہچان بن چکا ہے۔ اس کی بے حرمتی کو دنیا کے چند بڑے جرائم میں شامل کیا جاتا ہے۔

    پہلے دور میں پرچم کو صرف کسی خاص علامت یا اشارے کے لئے استعمال کیا گیا، لیکن اب اس کے معنی اور استعمال میں وسعت آچکی ہے اور اسے مختلف پیغامات، اشتہارات سمیت دیگر آرائشی مقاصد کے حصول کے لئے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں قومی جھنڈوں کو بناتے وقت مذہب، حب الوطنی، مقامی روایات، خوشحالی، امن کے رنگوں اور علامتوں کا خصوصاً خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کا قومی پرچم گہرے سبز رنگ (جس پر چاند اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے) اور سفید پٹی پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں اور سفید ملک میں آباد مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

    لیاقت علی خان کی طرف سے پیش کئے گئے اس پرچم کی منظوری اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی نے دی تھی۔ قومی جھنڈے کا ڈیزائن دہلی کے رہائشیوں دو بھائیوں افضال حسین اور الطاف حسین نے بنایا۔1947ء میں منظور ہونے والے پرچم کا ایک ہی رنگ (سبز) تھا، تاہم 9فروری 1949ء کو اس میں سفید حصے کا اضافہ کیا گیا۔

    وطن عزیز کی بڑھتی عمر کے ساتھ اس کے حالات بھی بدلتے گئے، یوں آہستہ آہستہ قومی پرچم تلے متعدد سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے بھی لہرانے لگے۔ جس طرح قومی پرچم کا سبز، سفید رنگ اور چاند ستارے کا ایک فلسفہ ہے، بالکل یوں ہی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں میں شامل رنگ اور دیگر علامتیں بھی ایک خاص مفہوم رکھتی ہیں۔ آئیے اب ہم پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں کے پرچموں کی تفہیم کا جائزہ لیتے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ (ن)

    16نومبر1988ء کو میاں نواز شریف کی سربراہی میں بننے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا جھنڈا صرف دو رنگوں پر مشتمل ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ سبز کا ہے جبکہ اس کے اندر ہی سفید رنگ کا چاند ستارہ بھی موجود ہے۔ سبز رنگ ملک میں بسنے والی تمام قومیتوں کے علاوہ خوش حالی کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ چاند ستارہ ملت اسلامیہ اور پاکستان کے دنیا میں ابھرتے ہوئے مقام کی جانب اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ اس پارٹی پرچم میں اب شیر کی تصویر بھی نظر آتی ہے، جو جرات و بہادری کی علامت کے ساتھ پارٹی کا انتخابی نشان بھی ہے۔

    پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز

    نومبر1967ء میں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں تین رنگوں پر مشتمل پارٹی پرچم پیش کیا گیا، جسے اس وقت کے رہنماؤں کی طویل مشاورت سے پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے منظور کیا۔ یہ پرچم سبز، سیاہ اور سرخ رنگ کے علاوہ سفید چاند ستارے پر مشتمل ہے۔ اس جھنڈے میں موجود سبز رنگ اسلام کی نمائندگی کرتا ہے۔

    یہ رنگ گنبد خضریٰ سے لیا گیا ہے، جس سے مسلمان گہری عقیدت رکھتے ہیں، جب کہ سبز اور سرخ رنگ کے درمیان موجود سیاہ رنگ ملک میں موجود غربت، ناانصافی، بھوک و افلاس، بیروزگاری اور جہالت کی علامت ہے، جس کے بارے میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس روز ہمارا ملک اس تاریکی سے نکل آیا، اس روز سیاہ رنگ پیپلزپارٹی کے پرچم کا حصہ نہیں رہے گا۔

    اس کے علاوہ پی پی پی کے پرچم کے تین رنگوں سبز، سیاہ اور سرخ کو کالی کملی اور شہادت حضرت امام حسینؓ سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، جب کہ ایک فلسفہ یہ بھی موجود ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جدوجہد سے ملک کو تاریکی سے نکال کر خوش حالی کے عہد میں لے جائے گی۔

    اس طرح پرچم کے وسط میں موجود ہلال ستارہ امت مسلمہ کی علامت ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور لیبیا کے قومی پرچم میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ نومبر 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کا جو پرچم منظور کیا گیا، اس میں چاند کا رخ سرخ رنگ کی جانب یعنی بائیں طرف تھا۔ لیکن بعدازاں بعض پارٹی رہنماؤں کے اعتراض پر چاند کا رخ پاکستانی پرچم کی طرف دائیں جانب یعنی سبز رنگ کی طرف کردیا گیا، جو آج تک برقرار ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف

    25 اپریل1996ء میں بننے والی پی ٹی آئی کا پرچم اگست 1996ء میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں منظور ہوا۔ یہ پرچم دو رنگوں سبز اور سرخ پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں موجود سرخ رنگ انقلاب و تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ سبز رنگ پاکستان کے جھنڈے اور گنبد خضریٰ سے لیا گیا ہے۔ اسی طرح پرچم کے وسط میں موجود چاند ستارہ بھی پاکستانی پرچم سے لیا گیا ہے، لیکن تحریک انصاف کے جھنڈے میں موجود سفید چاند ستارے کی حیثیت پاکستان کے قومی پرچم میں موجود سفید حصے سی ہے، جو اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    استحکام پاکستان پارٹی

    5 اکتوبر2023ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہونے والی پارٹی کی بنیاد پاکستانی سیاست کے ایک معروف نام جہانگیر خان ترین نے 8 جون 2023ء کو رکھی۔ قومی پرچم سے مماثل استحکام پارٹی کا پرچم چاند تارے سمیت 3 رنگوں یعنی سبز، سفید اور سرخ پر مشتمل ہے۔ پارٹی پرچم میں شامل سبز رنگ اور چاند تارا قومی پرچم سے لیا گیا ہے، جو قومی محبت کی علامت ہے۔ سرخ رنگ ترقی اور تبدیلی کی علامت جبکہ سفید سفید اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ

    متحدہ قومی موومنٹ کا پرچم 1978ء میں ’’آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس فیڈریشن (اب آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس فیڈریشن) کی بنیاد رکھتے وقت ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کا پرچم بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی طرح سہ رنگی ہے۔ تاہم، ایم کیو ایم کا پرچم سفید، سبز اور سرخ رنگوں پر مشتمل ہے۔ جھنڈے میں موجود سفید رنگ، جو نصف حصے پر پھیلا ہوا ہے، امن کی نمائندگی کرتا ہے، سبز پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی جدوجہد کی علامت ہے، جب کہ سرخ رنگ سے مراد قیام پاکستان کے وقت دی گئی قربانیاں ہیں۔

    جمعیت علمائے اسلام (ف) اور (س)

    ملک کے معروف مذہبی و سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں پاکستان کے سیاسی افق پر نظر آنے والی جمعیت علمائے اسلام (ف) کا پرچم9 سیاہ اور سفید سیدھی دھاریوں پر مشتمل ہے۔ پارٹی کے راہ نماؤں کے مطابق چوں کہ احادیث سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ نبی اکرمؐ جنگوں کے دوران یہی پرچم استعمال کرتے تھے اور اس سے مراد حق و باطل میں تفریق لی جاتی تھی، لہٰذا۔۔۔ جے یو آئی نے بھی اپنے لئے اسی پرچم کا انتخاب کیا ہے۔

    جب کہ جمعیت علمائے اسلام ہند کا پرچم بھی بظاہر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جھنڈے جیسا ہے، مگر اس پرچم میں فرق یہ ہے کہ اس میں سیاہ و سفید دھاریوں کی تعداد11ہے۔ تاہم ان میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں جھنڈوں میں سیاہ دھاریوں کی تعداد غالب ہے۔ جے یو آئی (ف) کے پرچم میں دھاریوں کی تعداد کم رکھ کر جمعیت علمائے ہند کو فضیلت دی گئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جمعیت علماء اسلام کا ایک بڑا حصہ جے یو آئی (س) یعنی مولانا سمیع الحق (مرحوم) پر مشتمل ہے، تاہم اس پارٹی کا پرچم بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پرچم کے مشابہے ہے۔

    جماعت اسلامی

    26اگست1941ء کو مولانا ابوالاعلی مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیادی رکھی اور انہوں نے ہی جماعت کے پرچم کو تجویز کیا تھا۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی پاکستان کا پرچم سبز، سفید اور نیلے رنگ پر مشتمل ہے۔ پرچم کے کثیر حصے پر سفید رنگ پھیلا ہوا ہے، جس کے عین وسط میں چاند ستارہ ہے اور اس کے اوپر کلمۂ طیبہ درج ہے۔ جماعت اسلامی کے جھنڈے میں بھی سبز رنگ گنبد خضریٰ سے لیا گیا ہے، جو دین مصطفویؐ سے آنے والے سرسبز انقلاب کی نمائندگی کرتا ہے۔

    سفید رنگ امن و سلامتی کا اظہار ہے اور نیلا رنگ آفاقیت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ سارے جہاں میں امن و سلامتی قائم ہو۔ جھنڈے میں موجود چاند ستارہ ابھرتی ہوئی طاقت کی نمائندگی کرتے ہیں، جب کہ جھنڈے میں کلمۂ طیبہ کا مفہوم یہ ہے کہ پوری دنیا میں امن و سکون کی ضمانت اسی کلمے میں پنہاں ہے۔ جماعت اسلامی کے جھنڈے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس پر موجود ہلال کا رخ بائیں جانب ہے، جب کہ پاکستان کے قومی پرچم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے میں ہلال کا رخ دائیں طرف ہے۔

    تحریک لبیک پاکستان

    تحریک لبیک پاکستان نے حال ہی یعنی 4 جنوری 2024ء کو پارٹی کا نیا پرچم متعارف کروایا ہے۔ اس پرچم کے تین رنگ ہیں، جن میں سبز، سفید اور سیاہ شامل ہے۔ پرچم میں سب سے زیادہ حصہ سبز رنگ کا ہے، جو اسلام کی نمائندگی کرتا ہے، دوسرا رنگ سفید ہے، جو ملک میں اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ سیاہ جہاد کی علامت تصور کیا گیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی لیگل ایڈوائزر رضوان احمد کے مطابق جہاد سے ہماری مراد وہ ہے، جس کا اعلان ریاست کرے گی۔

    پاکستان مسلم لیگ (ق)

    چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کی سربراہی میں سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے جھنڈے کا سبز رنگ اور اس پر موجود چاند ستارہ پاکستانی پرچم سے لئے گئے ہیں، جو امت مسلمہ اور خوش حالی کی علامت ہیں۔

    عوامی نیشنل پارٹی

    عوامی نیشنل پارٹی کے جھنڈے کا سرخ رنگ ہے جو1929ء میں خان عبدالغفار خان عرف باچا خان نے اپنی تحریک، خدائی خدمت گار کے رضاکاروں کی وردی کے لئے تجویز کیا تھا۔ یہ رنگ جدوجہد اور قربانیوں کی علامت ہے۔ خدائی خدمت گار تحریک کے جھنڈے کے رنگ کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ1929ء سے قبل اس تحریک کے جھنڈے کا رنگ سفید تھا، جو پشتونوں کے قبائلی معاشرے میں امن و آشتی کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور تحریک کے رضا کار بھی مارچ کے دوران سفید رنگ کا لباس زیب تن کرتے تھے۔

    بعدازاں خان عبدالغفار خان نے اپنے رضا کاروں کے لیے سرخ رنگ کی وردی تجویز کی، کیوں کہ سفید لباس جلد میلا ہوجاتا تھا۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے جھنڈے کا سرخ رنگ سوشلسٹ نظریاتی کی نمائندگی کرتا ہے، مگر اے این پی کے سینئر رہنما اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کبھی بھی سوشل ازم کی نمائندہ نہیں رہی، البتہ سوشلسٹ اس پارٹی کے سائے تلے کام کرتے رہے ہیں۔

    1988ء میں خان عبدالولی خان کی سربراہی میں عوامی نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا، جس میں مزدور کسان پارٹی، سندھ عوامی تحریک، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا ادغام ہوا۔

    یہ 1956ء میں باچا خان کی قیادت میں بننے والی ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کا تسلسل تھی جس میں بنگال سے مولانا عبدالحمید بھاشانی، پنجاب سے مختار رانا اور سندھ سے جی ایم سید شامل تھے۔ اس دور میں نیشنل عوامی پارٹی کے پرچم میں پانچ ستارے تھے، مگر سقوط ڈھاکہ کے بعد چار ستارے رہ گئے اور پھر ’’نیب‘‘ کے پرچم کی چین کے قومی جھنڈے سے مماثلت کو جواز بناکر ان ستاروں کو بھی ختم کر دیا گیا۔

    جمہوری وطن پارٹی

    نواب اکبر بگٹی نے16اگست 1990ء کو جمہوری وطن پارٹی کے نام سے بلوچستان میں ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جمہوری وطن پارٹی کے لئے جس پرچم کا انتخاب کیا گیا، اس کی منظوری بھی نواب اکبر بگٹی نے ہی دی تھی۔ پارٹی کے موجودہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ پرچم نواب صاحب کی نشانی ہے جسے کبھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ پرچم سرخ اور سبز رنگ کے ساتھ چار ستاروں پر مشتمل ہے۔ پارٹی فلسفہ کے مطابق سرخ رنگ جدوجہد، سبز خوشحالی اور چار ستارے چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    پختونخواہ ملی عوامی پارٹی

    1989ء میں بننے والی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا مقصد بلوچستان، کے پی کے اور قبائلی علاقوں کے پشتونوں کو متحد کرنا اور ان کو حقوق کی فراہمی ہے۔ بولان سے چترال تک زیادہ اثر و نفوذ رکھنے والی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی ہیں۔ پارٹی کا جھنڈا سرخ، سفید، سبز اور سرخ ستارہ پر مشتمل ہے جس میں سرخ رنگ کو انقلاب یا تبدیلی، سفید کو امن، سبز کو ترقی اور سرخ ستارہ رہبر کی علامت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پرچم کی منظوری1970ء کے پہلے عام انتخابات میں اس وقت دی گئی تھی جب محمود اچکزئی کے والد صمد خان ایم پی اے بنے تھے۔

    پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرینز

    17جولائی 2023 کو سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی سربراہی میں بننے والی نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرینز کا پرچم دو رنگوں(سبز اور سرخ) اور چاند تارے پر مشتمل ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پرچم کے رنگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ سبز ہلالی رنگ ملکی محبت کے ساتھ ترقی و خوشحالی جبکہ سرخ رنگ انقلاب اور تبدیلی کی علامت ہے جبکہ پرچم میں چاند تارا قومی پرچم سے مشابہے ہے۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے جھنڈے میں سرخ رنگ جدوجہد، زرد رنگ ساحلی وسائل اور معدنی دولت جبکہ سبز رنگ ترقی اورخوشحالی کی علامت ہے۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)

    بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے جھنڈے میں ستارہ شعور وآگہی اور روشنی جبکہ سبزرنگ خوشحالی وترقی اور زردرنگ قومی وسائل پر دسترس حاصل کرنے کی علامت ہے۔

    جمعیت علماء اسلام نظریاتی

    جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے جھنڈے میں سیاہ رنگ دورجہالت کی نشاندہی جبکہ سفید رنگ امن، ترقی اور روشنی کی علامت ہے۔ جے یو آئی کے مطابق نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے وقت اسی رنگ کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا۔

    نیشنل پارٹی

    نیشنل پارٹی کے جھنڈے میں ستارہ پاکستان میں قوموں کی برابری اور نمائندگی جب کہ سبزرنگ خوشحالی وترقی اور سرخ رنگ انقلاب، جدوجہد اور تبدیلی کی علامت ہے۔

    پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی موثر نمائندگی کیسے ممکن؟

    سیاسی جماعتوں کے نامزد نمائندے اقلیتوں کے بجائے سیاسی جماعتوں سے وفاداری نبھاتے ہیں

     سیمسن سلامت
    چیئرمین رواداری تحریک پاکستان
    [email protected]

    8فروری2024کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر انتخابات کے لئے ہلکی پھلکی گہما گہمی نظر آنا شروع ہوگئی ہے جو بتدرئج بڑھے گی۔ سیاسی کشیدگی کے ماحول میں انتخابی عمل کا مکمل ہو جانا بڑی کامیابی ہوگی تاہم انتخابی عمل میں اندرونی اور بیرونی مداخلت، اداروں کی جانبداری دھونس دھاندلی اور پیسے کے بے دریغ استعمال کو روکنا اور امن عامہ کو برقرار رکھنا الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

    اس پیرائے میں پاکستان کے جمہوری نظام میں خامیوں پر بھی بات ہو رہی ھے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کے لئے رائج طریقہ کار پر بھی سوالات اُٹھ رھے ہیں۔

    ایک طرف ایسا طبقہ ہے جو ان مخصوص نشستوں کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے تگ ودو میں ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا، سیاسی و سماجی تقریبات اور غیر رسمی گفتگو میں زیادہ تر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجودہ نظام پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے ضروری ھے کہ اقلیتوں اور دیگر حقوق سے محروم طبقات کی نمائندگی کو موثر بنانے کے لئے اس موضوع کو جمہوری اصولوں اور اقدار کی روشنی میں پرکھا جائے۔

    مخصوص نشستوں کا طریقہ کار کیا ہے؟

    1985سے2002تک پاکستان میں اقلیتوں کے لئے جدا گانہ طرز انتخاب رائج تھا، جس کے تحت اکثریت اور اقلیت مذہبی شناخت کی بنیاد پر الگ الگ اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے۔ 2002 میں ایک لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت ملک میں مخلوط انتخابات کا طریقہ کار رائج کیا گیا جس کے تحت تمام ووٹرز قومی اور صوبائی حلقوں میں بلا تخصیص مذہب امیدواروں کو ووٹ ڈال کر نمائندہ منتخب کرتے ہیں جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کے لئے متناسب نمائندگی کا طریقہ کا رائج کیا گیا جس کے تحت سیاسی جماعت کو کل حاصل شدہ سیٹوں کے تناسب سے اقلیتوں اور خواتین کی نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں جس کے لئے ہر سیاسی جماعت انتخابات سے قبل ایک ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو جمع کرواتی ہے اور الیکشن میں سیاسی جماعتیں جتنے فیصد نشستیں حاصل کرتی ہیں انکو اس تناسب سے مخصوص نشستیں مل جاتی ہیں۔

    متناسب نمائندگی کا طریقہ کارجمہوری اصولوں کی نفی

    جدید جمہوری اصولوں کے مطابق ووٹر یا کسی بھی گروہ کے لیے مخصوص کی گئی نشستوں کے لئے چناؤ کا اختیار ووٹرز کو ہونا چاہئیے لیکن پاکستان میں رائج اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر رائج نظام اقلیتی ووٹرز سے چناؤ کا حق چھین کر سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اقلیتوں کے نمائندے کون ہوں گے لہٰذا یہ عمل کسی طور بھی الیکشن نہیں بلکہ سیلیکشن ہے اور سیاسی جماعتیں جس کو چاہتی ہیں اسکو الیکشن میں اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے سیلیکٹ کرکے پارلیمنٹ میں بٹھا دیتی ہیں یعنی اقلیتی ووٹرسے فیصلہ کرنے کا اختیار چھین کر سیاسی جماعتوں کر دے دیا گیا ہے۔

    یہ طریقہ کار کسی بھی طور جمہوری نہیں بلکہ ایک لاٹری سسٹم لگتا ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص جو کسی پارٹی قیادت کا منظور نظر ہوگا یا کوئی تگڑی سفارش ہوگی پیسے دیکر یا اثر و رسوخ استعمال کر کے مخصوص نشستوں پر پارٹی ٹکٹ حاصل کرلیتا ہے لہٰذا بنا ووٹ لئے اس کو سیٹ مل جاتی ہے۔ غیر منصفانہ اور میرٹ پر مبنی طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ بھی اقلیتوں کے نمائندے بن کر سامنے آتے ہیں جن کو متعلقہ علاقے کی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگ خود بھی نہیں جانتے اور نہ ہی سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ تجربہ ہوتا ہے۔

    مخصوص نشست پر اقلیت بے اختیار

    چونکہ متناسب نمائندگی کے طریقہ کار کے تحت اقلیتی نشستوں پر قومی اسمبلی میں پہنچنے والے نمائندے سیاسی جماعتوں کی مرضی سے آتے ہیں لہٰذابادی النظر میں نمائندگی بھی اپنی جماعتوں کی ہی کرتے ہیں ایسے بہت سے قصے سننے کو ملتے ہیں جب اقلیتی ووٹرز مخصوص نشستو ں پر بیٹھے افراد کے پاس اپنے مسائل لے کر گئے تو یہ سننے کو ملا کہ ہم کونسا آپ کے ووٹ لے کر آئے ہیں؟

    یہ لمحہ فکریہ اور پاکستانی اقلیتوں کے ساتھ کھلم کھلا مذاق اور حقیقت میں سماجی اور سیاسی حیثیت میں کم تر سمجھے جانے کا ایک اور ثبوت ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں انکی نمائندگی کے لئے انکو مخصوص نشستیں دی گئیں لیکن اختیارات یہاں پہنچ کر بھی ان سے کوسوں دور ہیں۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ کار دراصل اقلیتوں کو سیاسی نمائندگی سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مرضی سے مخصوص افراد اقلیتی نشستوں پر اپنے اثر و رسوخ سے بار بار اسمبلیوں میں جا بیٹھتے ہیں۔ اقلیتی نوجوانوں میں اس حوالے سے مایوسی بھی نظر آتی ہے، کیونکہ اس سے یہ تاثر زور بھی پکڑتا ہے کہ کیا فائدہ سیاست میں حصہ لینے کا کیونکہ اسمبلی میں تو پھر انہی لوگوں نے چلے جانا ہے جو پہلے سے موجود ہیں۔

    مخصوص نشستوں پر بالادست طبقے کا قبضہ اور کنٹرول

    بلاشبہ پاکستانی جمہوریت ابھی تک امیروں اور بلادست طبقے کے قبضے میں ہے جو اقتدار بھی سنبھالتے ہیں اور فیصلے بھی انہیں کے اختیار میں ہیں۔ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے رائج متناسب نمائندگی کے طریقہ کار میں اقلیتیں اپنا فیصلہ خود کرنے میں با اختیار نہیں ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی غلام کو یہ کہا جائے کہ روٹی کپڑا تو تمہیں ملے گا لیکن اس میں تمہاری چوائس اور پسند شامل نہیں ہوگی بلکہ مالک یا کسی منشی کی مرضی ہوگی، یعنی پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے نام پر نمائندگی تو ملے گی مگر نمائندہ ہماری (سیاسی جماعت) کی مرضی کا ہوگا اور تمہیں (اقلیتوں کو) فیصلہ ہر حال میں ماننا بھی ہوگا۔

    یہ نظام دراصل سو فیصداقلیتی ووٹرز کو مخصوص نشست کے چکر میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی اشرافیہ کا محتاج بن دیتا ہے مخصوص نشست پر اگر رکن اسمبلی بننا ہے تو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ترجیہی فہرست میں آنے کے لئے کسی سیاسی جماعت کی منتیں کرنی پڑیں گی۔ حالانکہ جنرل نشستوں پر حلقے کے الیکشن میں جس امیدوار کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ پہنچ جاتا ہے مگر یہ سہولت اقلیتوں کی سیٹوں پر میسر نہیں۔

    اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پرچناؤ منصفانہ کیسے ہو سکتا ہے؟

    چونکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کا اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کا طریقہ سراسر آمرانہ اورغیرمنصفانہ ہے لہٰذا اقلیتوں کی نمائندگی کو موثر بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں اور اقلیتی برادریوں کے سیاسی و سماجی رہنماؤں اور ووٹرز کے درمیاں مشاورت کی ضرورت ہے جس میں کچھ ماہرین کو شامل کر کے کوئی قابل عمل سکیم متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر سرکار نے مشاورت صرف اقلیتی نشستوں پر اسمبلیوں میں بیٹھے افراد سے کرنی ہے تو وہ بے فائدہ ہوگی۔ اس حوالے سے چند تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔

    ٭سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے سیلیکشن سسٹم کا خاتمہ کریں۔

    ٭قومی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کو پر کرنے کے لئے ڈویژن کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کر دی جائیں۔

    ٭اقلیتی ووٹرز اپنے حلقے میں جنرل نشست پر ووٹ ڈالیں اور ڈویژن میں اقلیتی نشستوں پر امیدواروں کو بھی ووٹ ڈالیں۔ ایک سکیم یہ ہے کہ الیکشن کے دن اقلیتی اور اکثریتی ووٹرز کو دد بیلٹ پیپرز جاری کئے جائیں جس میں سبز ووٹ جنرل نشست پر حلقے کے امیدوار لے لئے ہوگا اور وائٹ پیپر ڈویژن کے اقلیتی امیدوار کے لئے ہواور ڈویژن میں وائٹ پیپر جو امیدوار سب سے زیادہ ووٹ لے وہ اقلیتی ایم این اے یا ایم پی اے بن جائیگا۔

    ٭اس طریقہ کا یا سکیم سے مخلوط طرز انتخاب بھی برقرار رہے گا اور اقلیتی نمائندہ بھی اپنے ڈویژن کے ووٹرز سے ووٹ لیکر منتخب ہوگا۔ اقلیتی امیدوار امیدوارڈ میں آزاد حیثیت میں یا کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر بھی الیکشن لڑنے کے اہل ہونگے۔

    ٭اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کو پُر کرنے کے لئے کوئی بھی قابل عمل سکیم بحث کے لئے اور مشاورت کے ذریعے فائنل کی جاسکتی ہے۔ پہلے قدم کے طور پر ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں موجودہ نظام کو غیر جمہوری اور غیر منصفانہ قرار دے کر اس کے خاتمے کا اعلان کریں۔

    بلاشبہ 8 فروری 2024کے انتخابات موجودہ طریقہ کار کی بنیاد پر ہی ہونگے تاہم اگلے انتخابات سے قبل اس کا خاتمہ ترجیحی بنیاد پر کرنا ہوگا تاکہ کہ اقلیتوں میں آحساس محرومی کم ہو اور انکی پارلیمنٹ میں نمائندگی موثر ہو سکے۔