کیا دکھاتے ہیں انتخابات ۔۔۔ منتظر ہے نگاہ!

    آج ملک کے طول وارض میں عام چناؤ ہو رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے سیاسی نظام میں یہ دن اہم ترین شمار کیا جاتا ہے، پاکستان کے عام انتخابات کی تاریخ میں دیکھیے تو یہ بارہویں عام انتخابات ہیں۔ تاہم یہ پہلے ایسے انتخابات ہیں، جو مختلف انتظامی معاملات اور تیاریوں کے جواز کے باعث مزید تین ماہ کی تاخیر سے آج منعقد ہو رہے ہیں، ورنہ معمول کے مطابق یہ انتخابات نومبر 2023ء کے وسط میں ہو جانا چاہیے تھے۔

    پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ میں یہاں کے پہلے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، پاکستان پیپلزپارٹی کی اکثریت اس کے بعد تھی۔ بدقسمتی سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو حکومت نہیں بنانے دی گئی اور اس کے نتیجے میں 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا اور ہمارا اکثریتی حصہ ’مشرقی پاکستان‘ بنگلادیش بن گیا۔

    اس تلخی کے بعد 1973ء میں باقی ماندہ ملک کا دستور بنایا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم قرار پائے۔ اصولی طور پر یہ انتخابات 1978ء میں ہونا تھے، لیکن 1977ء میں قبل ازوقت انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ اس وقت حکم راں پیپلز پارٹی کے مدمقابل ’نیشنل عوامی پارٹی‘ ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود تھی، جس نے بلوچستان اور سرحد (خیبر پختونخوا) میں حکومتیں بھی بنائیں، لیکن بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کی جانب نہ صرف ان صوبائی حکومتوں کو ختم کیاگیا، بلکہ ’نیشنل عوامی پارٹی‘ (نیپ) کو بھی کالعدم جماعت قرار دے دیا گیا، جس کے بعد یہ سیاسی جماعت قصہ پارینہ بن گئی۔ اس کا نیا نام ’عوامی نیشنل پارٹی‘ تھا، لیکن یہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال نہ کرسکی اور مجموعی طور پر ولی خان کے خاندان اور صوبہ پختونخوا تک محدود ہو کر رہ گئی۔

    یوں ملک میں متبادل سیاسی قیادت کا ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا، جسے بعد میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کے سیاسی اکٹھ اور ’پاکستان مسلم لیگ‘ کے ذریعے پُر کیا گیا۔ بعد ازاں یہ صرف ’مسلم لیگ‘ (ن) ہی کی شکل اختیار کر گیا اور ہم نے دیکھا کہ 1988ء تا 1999ء باری باری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو، دو بار برسراقتدار آئیں۔

    اس عرصے میں دو بڑی جماعتوں کے اقتدار کے امکانات میں رائے عامہ بہت شد ومد سے کسی تیسری بڑی سیاسی جماعت کی خواہش ظاہر کرتے رہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے 1993ء کے عام انتخابات میں ’پاکستان اسلامک فرنٹ‘ کے نام سے ’جماعت اسلامی‘ کی ایک ’انتخابی توسیع‘ پیش کرکے اچھا خاصا انتخابی ماحول گرما دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ بے نظیر اور نوازشریف دونوں کا دور گزر گیا، اب ہماری باری ہے۔

    اس وقت ان کا انتخابی نشان ’کار‘ تھا، لیکن جب انتخابی نتائج آئے تو ’پاکستان اسلامک فرنٹ‘ کو گنی چنی نشستوں کے سوا کہیں بھی کام یابی نہیں مل سکی تھی، یوں جماعت اسلامی ’فرنٹ‘ سے واپس اپنے سابقہ سیاسی لائحہ عمل پر آگئی۔

    1997ء کے عام انتخابات اس اعتبار سے کچھ مختلف تھے کہ یہ عمران خان کی نومولود ’پاکستان تحریک انصاف‘ کا پہلا باقاعدہ انتخابی دنگل تھا۔ اس وقت عمران خان کا انتخابی نشان ’چراغ‘ تھا اور انھوں نے بہ یک وقت کراچی اور لاہور سے انتخاب لڑا تھا اور دونوں جگہوں پر شکست سے دوچار ہوگئے تھے۔ اگرچہ کام یابی کا امکان اتنا تھا بھی نہیں، لیکن کسی ’تیسرے اختیار‘ کے متمنی عوام کے لیے یہ ایک تازہ ہوا کا ایک جھونکا سا لگا تھا۔

    کسی مثبت اور مستحکم جمہوری تبدیلی کے خواہاں عوام کے سامنے 2002ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر مذہبی جماعتوں کے اشتراک سے ’متحدہ مجلس عمل‘ کی شکل میں ایک بڑا اتحاد سامنے آیا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں اور افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد ملک بھر میں امریکا مخالف لہر اور مذہبی جذبات کے کام یابی سے استعمال کے نتیجے میں ’متحدہ مجلس عمل‘ نے بڑی کام یابی حاصل کی۔

    انتخابی نتائج آئے تو وہ بلوچستان اور سرحد میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پارلیمان میں مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے بعد تیسری بڑی عددی قوت رکھتے تھے، لیکن اگلے انتخابات سے پہلے پہلے ’متحدہ مجلس عمل‘ بھی قصہ پارینہ بن کر رہ گئی۔ 2002ء کے عام انتخابات میں عمران خان پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بننے میں کام یاب ہوئے تھے، لیکن ان کے علاوہ تحریک انصاف کے کسی اور رکن کو فتح نہ مل سکی۔

    تبدیلی اور اچھے حکم رانوں کے چناؤ کے خیال کو سامنے رکھتے ہوئے 2008ء کے عام انتخابات ایک مرتبہ پھر 1990ء کی دہائی کے انتخابات ثابت ہوئے اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی دو بڑی سیاسی جماعتیں بن کر سامنے آئیں۔

    تحریک انصاف نے اس وقت کے اتحاد ’پی ڈی ایم‘ کے ساتھ مل کر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کیوں کہ طے کیا گیا تھا کہ پرویزمشرف کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس بائیکاٹ سے انحراف کیا تھا، جب کہ جماعت اسلامی کے ساتھ محمود خان اچکزئی کی ’پشتونخوا ملی عوامی پارٹی‘ بائیکاٹ کا ساتھ دینے والوں میں شامل رہی تھیں۔

    2013ء کے انتخابات سے پہلے ہی عمران خان کی مقبولیت کا طبل بج چکا تھا اور وہ نہایت کام یابی سے ملک بھر میں منعقدہ اپنے بڑے بڑے جلسوں میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی وکٹ لینے کا دعویٰ کر رہے تھے، تاہم انتخابی نتائج کے مطابق وہ ایسا نہ کرسکے، لیکن پہلی بار تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئے، اگرچہ انھوں نے انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دے کر اس کے خلاف احتجاج اور دھرنے کی راہ اپنائی۔

    2018ء کے عام انتخابات میں بالآخر تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آنے میں کام یاب ہوگئی اور پہلی بار ملک میں جاری غیراعلانیہ دو جماعتی نظام پر باقاعدہ ایک ضرب سی لگی۔ بہت سے وہ لوگ جو سیاسی نظام اور دو جماعتوں کی باریوں سے نالاں رہتے تھے، وہ کام یابی سے تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہوئے۔

    عمران خان 2022ء تک ملک کے وزیراعظم رہے، اس دوران انھیں ملک کا انتظام وانصرام چلانے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی اور ملکی نظام میں آنے والی خرابیوں کی بنا پر وہ اپنے وعدوں اور دعوؤں پر عمل کیا کرتے، الٹا وہ ملکی صورت حال بالخصوص معاش کے معاملات کو برقرار تک رکھنے میں ناکام ہوگئے۔

    انھوں نے ان تمام خرابیوں کا ذمہ پچھلے ادوار پر ڈال دیا۔ جب کہ انتخابی مہم میں وہ بہت بلندوبانگ دعوے کرتے رہے تھے، جس میں ہزاروں نوکریاں، مکانات سے لے کر ملک کے لیے کبھی قرض نہ لینے تک کے دعوے شامل تھے، ساتھ ہی بیرون ملک موجود دولت کو واپس لانے اور سابقہ حکم رانوں کی جانب سے ماہانہ کروڑوں اور اربوں کی بدعنوانی روکنے سے ملکی معیشت میں واضح استحکام جیسی باتیں تو وہ دُکھتی رگ تھیں، جس کے لیے ہر درد مند پاکستانی بہت متفکر رہتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ملک کی معیشت میں تغیرات نے صورت حال ابتر کردی۔

    معیشت کے گورکھ دھندے پہلے کی طرح تب بھی آنے والے دنوں میں بہتری آنے کی باتیں کرتے رہے، اور اس وقت کی معاشی بدحالی کا دوش ’کورونا‘ کی وبا کے دوران پیدا شدہ صورت حال کو بتاتے رہے، تاہم رائے عامہ بھی مایوس ہونے لگی۔

    اسی اثنا میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے بعد درجن بھر جماعتوں نے شہباز شریف کو نیا وزیراعظم بنایا۔ نئے وزیراعظم نے بھی اپنے پیش رو کی طرح ساڑھے تین سال کا ’گند‘ سمیٹنے کے رونے روئے۔ گذشتہ حکومت سے جاری معاشی دیوالیے کے خدشات کو سنبھالنے کی بات کی گئی۔

    وہی عمران خان حکومت کی طرح ملک کو ’قرض کی مے‘ پلائی گئی اور سادہ لوح عوام کبھی اُدھر دیکھتے اور کبھی اِدھر دیکھتے، اور سیاسی زعما کے ان وعدوں میں دوراہے کا شکار نظر آئے کہ کس پر اعتبار کریں اور کس پر نہیں۔ کہاں ہے جمہوریت اور وہ جمہور کا درد۔ اُدھر بھی لٹے اور اِدھر بھی لٹے۔۔۔

    اب پھر ’یوم احتساب‘ یعنی ’یوم انتخاب ‘ آگیا، پروپیگنڈے کے زوروں کے بعد انتخابی منچ لگ چکا ہے۔ ’تحریک انصاف‘ عدالت کو اپنی جماعت میں انتخابی عمل کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی، نتیجتاً عمران خان کی جماعت ’پاکستان تحریک انصاف‘ سے انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا گیا۔

    اس کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کے امیدوار طرح طرح کے انتخابی نشانات پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ہر علاقے میں تحریک انصاف کے امیدوار کا انتخابی نشان جداگانہ ہے۔ بہت سی جگہوں پر رائے دہندگان الجھن کا شکار بھی ہیں، کیوں کہ وہاں ایک سے زائد امیدوار تحریک انصاف کی جانب سے نام زدگی کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے نہ ملی، انھیں صرف جھنڈوں، بینروں، پوسٹروں اور اشتہارات پر اکتفا کرنا پڑا۔

    ’آزاد امیدواروں‘ کا دوسرا بڑا اعلان 2016ء سے بدترین ریاستی عتاب کا شکار ’ایم کیو ایم‘ (الطاف حسین گروپ) المعروف ’ایم کیو ایم‘ (لندن) نے انتخابی مہم ختم ہونے سے محض 48 گھنٹے قبل کیا۔

    کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر سمیت مظفر گڑھ اور ملتان کے دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں کُل 80 امیدواروں میں سے نصف امیدواوں کو A، جب کہ باقی کو متفرق نشانات دیے گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ’بانی متحدہ‘ بغیر تنظیمی نظم ونسق اور آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کے انتخابی دنگل میں اترے ہیں، بلکہ ان کی تنظیم ایم کیو ایم (بہادرآباد) ان کے روایتی انتخابی نشان ’پتنگ‘ پر ان کے مقابل بھرپور طریقے سے موجود ہے۔

    اور ’بانی متحدہ‘ کے آزاد امیدواروں کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریوں کی اطلاعات ہیں، ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا انتخابی نتائج برآمد ہوتے ہیں، کس گروپ کے امیدوار زیادہ کام یاب ہوتے ہیں اور انھیں کتنے ووٹ حاصل ہو پاتے ہیں۔

    کراچی کے سیاسی منظر نامے پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن ایک طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے ہیں، گذشتہ سال بلدیاتی انتخابات کے بعد رواں انتخابی مہم میں بھی وہ بہت ابھر کر سامنے آئے ہیں، اور وہ عام انتخابات میں بلدیاتی انتخابی نتائج زیادہ کام یابی سے دُہرانے کے خواہاں ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بیلٹ بکس پر کتنا اثر ڈالنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔

    مسلم لیگ (ن) نے کافی تاخیر سے اپنی انتخابی مہم شروع کی، جو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چند اضلاع تک محدود رہی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان نواز لیگ کی ترجیحات سے یک سر خارج رہا ہے۔

    دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے کسی بھی بڑی جماعت سے زیادہ آزادانہ انتخابی مہم چلائی اور سندھ ہی نہیں سندھ سے باہر بھی بہت سے جلسے کیے ہیں، دونوں ہی جماعتیں حالیہ انتخابات میں میدان مارنے کے دعوے کر رہی ہیں۔ چند ماہ پہلے تک مشترکہ حکومت میں ایک دوسرے کی اتحادی رہنے والی دونوں جماعتوں کی بیان بازی کو عوام بہت حیرانی سے دیکھ رہے ہیں اور سیاست کی ’بے رحمی‘ کے قائل ہو رہے ہیں۔

    دیگر انتخابی فریقین میں مسلم لیگ (ق)، تحریک لبیک پاکستان، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی)، جمعیت علمائے پاکستان، سندھ میں ’جی ڈی اے‘ سرحد میں بالخصوص اور دیگر علاقوں میں بالعموم جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر شامل ہیں، جو بہت زیادہ نہ سہی، لیکن اپنے اپنے حلقوں میں روایتی کام یابی سمیٹنے کے لیے کوشاں ہیں، جو پارلیمانی جوڑ توڑ میں اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔

    ان سطور کی اشاعت تک انتخابی عمل جاری ہوچکا ہوگا، اور پھر شام اور رات گئے تک ملک کے ایوان اقتدار کے خدوخال واضح ہونے لگیں گے، اور ہمیں پتا چل جائے گا کہ پاکستان کے عوام اگلے پانچ برسوں کے لیے اپنی یہ ’امانت‘ کس کے سپرد کر رہے ہیں۔

    ملک کے 11 عام انتخابات اور نتائج

    پہلے اور دوسرے عام انتخابات سنگین بحرانوں کا پیش خیمہ بنے!

    عام انتخابات سیاسی شعور اور آگہی کا ایک بڑا مظہر ہوتے تھے۔ آئین کے تحت ہر پانچ سال کے بعد منعقد ہونے والی یہ مشق بدقسمتی سے کئی بار قبل ازوقت بھی ہوتی رہی۔ ایک طرف جہاں ملک کے قیام کے بعد پہلے عام انتخابات کی نوبت 1970ء میں آسکی، وہیں اس کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران نے یہ ملک ہی دولخت کر دیا، جب کہ دوسرے عام انتخابات نے بھی ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر سیاسی وجمہوری حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا تھا۔

    ملکی تاریخ کے دوسرے عام انتخابات 1977ء میں ہوئے، اس وقت کی حکومت نے خود کو دوبارہ منتخب کرانے کی ایک ایسی متنازع مشق کی تھی، جس کے نتائج نے مارشل لا اور 11 برس کی مطلق العنان حکم رانی کو جنم دیا تھا، جس کے بعد 1977ء کے دھاندلی زدہ انتخابات ہوا تو ہوئے ہی، لیکن زمام اقتدار سنبھالنے والے جنرل ضیا الحق نے تین ماہ میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ وفا نہ کیا اور خدا خدا کرکے یہ نوبت 1985ء میں، یعنی کوئی آٹھ برس بعد آسکی۔ اور اس کی شکل بھی غیر جماعتی رکھی گئی۔

    اس طرح مختلف سیاست دانوں نے سیاسی جماعتوں کے بہ جائے آزاد اور ’غیر سیاسی گروپوں‘ کی شکل میں انتخابات میں حصہ لیا اور جیسے تیسے ایک منتخب پارلیمان وجود میں آئی۔ فوجی حکومت کی عتاب کا شکار پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ بے اختیار وزیراعظم محمد خان جونیجو کی اسمبلی بھی اپنے پانچ برس مکمل نہ کر سکی اور صدر جنرل ضیا الحق نے 29 مئی 1988ء کو یہ اسمبلی برخاست کر دی، عام انتخابات کا اعلان ہوا، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور چوتھے عام انتخابات سے قبل 17 اگست 1988ء کو ایک فضائی حادثے کی نذر ہوگئے۔

    نومبر 1988ء میں یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوئے، جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو پہلی بار ملک کی وزیراعظم بننے میں کام یاب ہوگئیں، لیکن 20 ماہ بعد ہی 6 اگست 1900ء کو صدر غلام اسحٰق خان نے اسمبلیاں توڑ دیں اور 1990 ء میں پانچویں عام انتخابات ہوئے، جس کے نتیجے میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف کو وزیراعظم نام زَد کیا۔

    صدراسحٰق خان نے 18 اپریل 1993ء کو نواز شریف کی حکومت کو بھی برطرف کردیا، لیکن وہ سپریم کورٹ چلے گئے اور عدالت نے نوازشریف کی حکومت کو بحال کردیا، لیکن یہ بحالی کارگر نہ ہوئی کیوں کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے نوازشریف اور اسحٰق خان دونوں سے استعفا لے لیا۔

    اس طرح 1993 میں چھٹے عام انتخابات کا انعقاد ہوا، جس کے نتیجے میں 19 اکتوبر 1993ء کو بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بن گئیں۔ جس میں فوجی آپریشن کو جواز بناتے ہوئے ’ایم کیو ایم‘ نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، لیکن یقین دہانی کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ بے نظیر نے صدر کے وار سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے وفادار سردار فاروق احمد خان لغاری کا انتخاب کیا، لیکن فاروق لغاری نے بھی 5 نومبر 1996ء کو خراب حالات کا جواز پیش کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑنے کا صدارتی اختیار استعمال کرڈالا۔ یوں تین فروری 1997ء کو منعقدہ عام انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے، اس بار نہ صرف وہ اپنی الگ جماعت مسلم لیگ (ن) سے منتخب ہوئے تھے، بلکہ انھیں دو تہائی اکثریت بھی ملی تھی۔

    انھوں نے صدر کی مسند پر سابق جج محمد رفیق تارڑ کو بٹھایا، اس سے قبل انھوں نے صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار 58(2) بی کا خاتمہ کر دیا، پیپلزپارٹی نے اس آئینی ترمیم پر نوازشریف کا ساتھ دیا۔ 1998ء میں فوج کے سیاسی کردار سے متعلق بات کرنے پر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفا لے لیا گیا، اس کے بعد 12 اکتوبر 1999ء کو سری لنکا کے دورے پر موجود آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کو برطرف کرنے کے عمل کے خلاف فوج نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور جنرل پرویزمشرف مسند اقتدار پر آگئے، انھوں نے خود کو ’چیف ایگزیکٹو‘ کہلوایا۔

    2001ء میں صدر رفیق تارڑ رخصت ہوئے تو جنرل پرویزمشرف نے صدارت سنبھال لی اور 10 اکتوبر 2002ء کو آٹھویں عام انتخابات منعقد ہوئے اور سرکاری آشیرواد سے 11 نومبر 2002ء کو مسلم لیگ (ق) کے میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے، جس کے بعد30 جون 2004ء چوہدری شجاعت حسین عارضی اور پھر 28 اگست 2004ء کو شوکت عزیز مستقل وزیراعظم قرار پائے۔ یوں 2007ء میں پہلی بار منتخب اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے تحلیل ہوگئیں۔

    اگلے عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں اور 27 دسمبر 2007ء کو راول پنڈی میں جلسے سے لوٹتے ہوئے قتل کردی گئیں، جس کے نتیجے میں عام انتخابات کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی۔ 18 فروری 2008ء کو نویں عام انتخابات ہوئے اور25 مارچ 2008ء کو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے، ابتداً نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت نے جنرل پرویزمشرف کے مواخذے کی تحریک جمع کرائی، جس پر وہ اگست 2008ء میں مستعفی ہوگئے اور آصف زرداری صدر بنے۔

    نواز لیگ معزول ججوں کی بحالی نہ ہونے پر حکومت سے الگ ہوگئی، 2009ء میں لانگ مارچ کے نتیجے میں نومبر 2007ء سے معزول جج بحال کیے گئے۔ اس کے بعد توہین عدالت کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی نااہل ہوئے تو 22 جون 2012ء کو راجا پرویزاشرف وزیراعظم ہوگئے۔ 2013ء میں ملکی تاریخ میں مسلسل دوسری بار اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوگئیں۔

    2013ء کے دسویں عام انتخابات کے نتیجے میں1997ء کی تاریخ دُہرائی گئی اور 5 جون 2013ء کو نوازشریف دو تہائی اکثریت لے کر دوبارہ وزیراعظم بن گئے، وہ تیسری بار اس مسند پر بیٹھنے والی واحد شخصیت ہیں، بیرون ملک جائیداد اور کاروبار کرنے کے مقدمے میں نوازشریف کو عدالت نے نااہل قرار دیا، اس طرح یکم اگست 2017ء کو نواز لیگ ہی کے شاہد خاقان عباسی اگلے وزیراعظم بنے۔

    25 جولائی 2018ء کو ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اور اس بار عمران خان وزیراعظم بننے میں کام یاب ہوگئے۔ 9 اپریل 2022ء کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں 9 اپریل 2022ء عمران خان وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئے، جس کے بعد حزب اختلاف کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف وزیراعظم بنے، جو 13 اگست 2023ء کو آئینی طور پر سبک دوش ہوئے۔

    اولین عام انتخابات سے پہلے کے آٹھ وزارئے اعظم!

    ٭ قیام پاکستان کے لیے منعقدہ انتخابات میں منتخب لیاقت علی خان اپنی شہادت 16 اکتوبر 1951ء تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔
    ٭ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل بھی رہے اور دوسرے وزیراعظم بھی۔ آپ کی وزارت عظمیٰ کی مدت 19 اکتوبر 1951ء سے 16 اپریل1953ء رہی۔ انھیں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا۔
    ٭ امریکا میں پاکستان کے سفیر چوہدری محمد علی 17 اپریل 1953ء تا 10 اگست 1955ء وزیراعظم رہے، انھیں بھی گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا۔
    ٭ چوہدری محمد علی 11 اگست 1955ء تا 12 ستمبر 1956ء وزارت عظمی پر رہے، پھر مستعفی ہوگئے۔
    ٭ حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء تا 18 اکتوبر 1957ء وزیراعظم پاکستان رہے، جنھیں گورنر جنرل اسکندر مرزا نے برخاست کیا۔
    ٭ ابراہیم اسمٰعیل چندریگر 18اکتوبر 1957ء تا 16 دسمبر 1957ء وزیراعظم رہے، پھر استعفا دے دیا۔
    ٭ ملک فیروز خان نون 16 دسمبر 1957ء تا 7 اکتوبر 1958ء وزارت عظمیٰ پر رہے، اس کے بعد ملک پر پہلا مارشل لا نافذ ہوگیا۔
    ٭ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے طویل مارشل لا ادوار کے بعد نور الامین 7 سے 20 دسمبر 1971ء تک وزیراعظم پاکستان رہے۔

    ناپختہ اور نابالغ سیاسی رویے ختم نہ ہو سکے!

    2002ء سے لگاتار جیسے تیسے لولے لنگڑے اور جمہوری عمل کے باوجود سیاسی وسعت، سنجیدہ رویوں اور جمہوری سوچ کا سخت فقدان آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ سیاسی رائے رکھنے والوں سے لے کر بڑے راہ نمائوں تک۔ سبھی علی الاعلان اسٹیبلشمنٹ سے صرف اپنے لیے گنجائش کی بات کرتے ہیں، کبھی ملفوف اشارے دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہم اس وقت اس سیاسی سوچ اور گنجائش سے کوسوں دور ہیں، جو جمہوریت اور سیاسی عمل کے لیے ناگزیر عنصر ہے۔

    یہاں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری سیاست بدترین منافقت، تعصب، بدعنوانی اور بدترین مفاد پرستی کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ تصور نہیں ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف کسی ناانصافی پر آواز بلند کی جائے، بلکہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی راہ نما چاہتے ہیں کہ کسی طرح سارے سیاسی حریفوں کو سیاسی عمل سے باہر کردیا جائے اور وہ بلا مقابلہ ’’منتخب‘‘ ہوکر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوجائیں۔

    سیاسی لوگوں کو اس رویے کی اصلاح کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملکی تاریخ میں سب سے طویل عرصے سے ایک سیاسی جمہوری عمل رواں ہے، اگرچہ حکومتیں سیاسی استحکام حاصل نہیں کر پاتیں، اور سیاست دان ہی باری باری ان غیر مرئی قوتوں کے آلہ کار بن کر اقتدار کے خلاف مختلف سلسلوں میں معاون بن جاتے ہیں، کیوں کہ سارے اصولوں سے بہت پرے، ان کی منزل اقتدار اور صرف اقتدار ہوتی ہے۔

    کسی بھی نظام کے لیے مسلسل انتخاب ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ سیاسی لوگوں کے رویوں کی تطہیر کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جمہوریت ایسے تو آگے نہیں بڑھتی۔ محض بغیر وردی کے حکم راں ہونا تو ’جمہوریت‘ قرار نہیں دی جا سکتی۔ جمہوریت تو کم از کم تھوڑے بہت سیاسی رویوں اور کچھ اصولوں کا تقاضا بھی کرتی ہے۔

    یہاں صرف سیاست کو نہیں اہل صحافت اور اہل قلم کو بھی برابر کا دوش ہے، کہ جن کا کام سماج کو راہ دکھانا ہے، وہ خود اپنے اپنے سیاسی نظریات یا سیاسی شخصیات اور خاندانوں کے ’حسن‘ کے اتنے اسیر ہوتے ہیں کہ بادشاہوں کے زمانے کے درباریوں کی یاد آجاتی ہے۔ ان کے سیاسی راہ بروں نے جو کہہ دیا وہ ہمیشہ درست ہوگا اور ان کے حریف نے کچھ بھی کیا، یہ اس کی مخالفت کے لیے کہیں نہ کہیں سے کوئی عذر تراش لائیں گے۔

    یہ بیمار رویے پورے سیاسی سماج کو ’سیاسی علیل‘ بنا چکے ہیں۔ کہیں شاذ ونادر ہی کوئی مناسب، متوازن اور وسعت کی بات سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے، باقی سب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زر خرید ہیں یا بھاڑے کے ٹٹو۔ نتیجتاً ہمارے رائے دہندگان کیا اور سیاسی کارکنان کیا، سبھی اسی سوچ کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔