میٹھی زبان خوش بُو – ایکسپریس اردو

    ہم سمجھتے ہیں کہ بس انسان چاقو، چھری، گولی سے ہی زخمی ہو جاتا ہے، کوئی حادثہ ہوتا ہے اور انسان زخمی ہو کر چلّانے لگتا ہے، کہیں کوئی جھگڑا ہُوا، گولیاں چلیں اور انسان زخموں سے کراہنے لگا، اور بس۔۔۔۔ اسی طرح کی بہت ساری باتیں۔

    لیکن مجھ فقیر کو بس اتنا سمجھ آیا ہے، اور میں دیکھتا بھی ہوں کہ یہ جو ہمارے منہ میں ایک چھوٹا سا گوشت کا لوتھڑا ہے جسے ہم ’’زبان‘‘ کہتے ہیں، اس سے سب سے زیادہ لوگ زخمی ہوتے ہیں اور زخمی بھی ایسے جو نظر بھی نہیں آتے۔ اس کا لگایا ہوا گھاؤ نظر نہیں آتا۔

    زخموں کا تو یہ ہے ناں کہ جناب! مرہم پٹی کی، تھوڑے دن تکلیف برداشت کی، ٹھیک ہے بہت کرب ناک ہوتے ہیں، وہ دن بھی، مگر مندمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پر اس کا نشان رہ جاتا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نشان بھی غائب ہو گیا۔ ہم اپنے بہت سارے زخموں کو بھول جاتے ہیں، ہمیں یاد نہیں رہتا کہ یہ زخم ہمیں لگا تھا، اتنا خون نکلا تھا، یاد ہی نہیں رہتا۔

    لیکن یہ جو زبان کا زخم ہے ناں یہ بہت برا زخم ہے، رستا رہتا ہے، کبھی بھرتا ہی نہیں، ہر دم تازہ اور رستا ہوا۔

    میری ایک رضائی ماں نے بچپن میں مجھے ایک کہانی سنائی تھی، میں آپ کو سناتا ہوں۔

    ہُوا یوں کہ ایک گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا، بہت اچھا، وہ مخلوق خدا سے بہت محبت کرتا تھا۔ انسانوں سے ہی نہیں، جانوروں سے بھی، پرندوں سے بھی، حشرات الارض سے بھی، یہ جو کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں ناں، درختوں سے بھی، پھولوں سے بھی، ہر ایک سے، محبت میں گندھا ہوا بندہ تھا۔ محبت اور سراپا محبت۔ گاؤں کے ساتھ ہی ایک جنگل تھا جس میں بہت سارے جانور رہتے تھے۔ وہ روز جنگل جایا کرتا، پرندوں کے لیے دانہ دنکا لے کر اور جانوروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لے کر جاتا۔ اس کی محبت میں جانور بھی مبتلا تھے۔

    یہ محبت جو ہے ناں، پتھروں کو بھی پگھلا دیتی ہے۔ بہت بڑی طاقت ہے یہ۔ اگر آپ کے گھر میں کوئی جانور یا پرندے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ سے کتنا مانوس ہوتے ہیں۔ کتنا پیار کرتے ہیں وہ آپ سے۔ تو جنگل کے سارے جانور اس کی محبت کے اسیر تھے، بے حد محبت کرنے والے۔ انھی جانوروں میں ایک چھوٹا سا سوّر بھی تھا۔

    آپ خفا بالکل بھی بُرا نہ محسوس کریں، دیکھیے! سوچیے ناں کہ وہ بھی تو اﷲ جی کی مخلوق ہے، ضرور کوئی حکمت ہوگی کہ اﷲ جی نے اسے بنایا ہے۔ تو وہ اس کا بھی بہت خیال رکھتا تھا۔ گاؤں کے بہت سے عقل والے، دانا و بینا لوگ اسے بہت منع کرتے کہ تم سوّر کا خیال مت رکھا کرو، تو وہ کہتا: کیوں! کیوں نہ رکھوں! یہ بھی تو رب تعالی کی مخلوق ہے۔

    بہت پاگل سا تھا ناں وہ، یہ پاگل لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ اپنی دنیا میں مست، کوئی بھی انھیں نہیں روک سکتا، وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں، کسی کی پروا نہیں کرتے وہ۔ تو وہ باز نہیں آیا اور جانوروں سے اور اس چھوٹے سے سوّر سے بھی محبت کرتا تھا، اس کا خیال رکھتا تھا۔

    پھر ہُوا یوں کہ اس بھلے آدمی کے بچوں کی شادی تھی۔ بہت دھوم دھام سے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اس نے سب گاؤں والوں کو بھی دعوت دی اور وہ جنگل میں بھی گیا اور جانوروں سے شیر سے، چیتے سے، لومڑی سے، کتے سے، بھالو سے، بندر سے، ہُد ہُد سے، چڑیا سے، کبوتر سے، وہ سب کو دعوت دے رہا تھا کہ آپ سب بھی ضرور آنا شادی پر۔ میں نے تمہاری دعوت کا بھی اہتمام کیا ہے، تم ضرور آنا، وعدہ کرو آؤ گے ناں، تو سب نے کہا: کیوں نہیں! ضرور آئیں گے ہم۔ آخر میں وہ اس چھوٹے سے سوّر کے پاس پہنچا اور اسے شادی میں آنے کا کہا۔ تو سوّر بولا: ’’دیکھو تم بہت اچھے ہو، مجھے لوگ اچھا نہیں سمجھتے، مجھے مت بلاؤ، میرا کھانا یہیں بھیج دینا۔ میں کھا لوں گا اور خوش ہو جاؤں گا۔ تمہاری خوشی میری خوشی ہے۔ مبارک ہو تمہیں۔‘‘

    لیکن وہ نیک دل بولا: ’’نہیں، نہیں۔۔۔۔ ضرور آنا چاہیے کچھ بھی ہو جائے تم میرے دوست ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم نہ آئے تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔‘‘

    سوّر نے لاکھ سمجھایا پر وہ نہ مانا۔ آخر وہ شادی میں آنے پر آمادہ ہوگیا۔

    پھر وہ گھڑی بھی آ پہنچی جب شادی کی تقریب میں مہمان آ رہے تھے، سب خوشی خوشی آ رہے تھے، آخر میں سوّر بھی چھپتا چھپاتا آیا اور کونے میں بیٹھ گیا، لیکن گاؤں کے ایک شخص نے اسے دیکھ لیا اور وہ چلّانے لگا: ’’دیکھو! دیکھو! یہ نحوست آگئی ہے، گندا اور منحوس جانور، توبہ توبہ اسے باہر نکالو۔‘‘ پھر تو سارا گاؤں اور اس شخص کے سارے رشتے دار چیخنے لگے، باہر نکالو، باہر نکالو اسے۔ اس نیک دل نے کہا: ’’آپ سب لوگ تشریف رکھیں یہ بھی اﷲ تعالی کی مخلوق ہے اور یہ تو بہت دُور بیٹھا ہوا ہے، آپ کو تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا اور پھر یہ میرا مہمان ہے۔ میں نے اسے بلایا ہے، آپ ایسا نہ کریں خدا کے لیے۔‘‘

    لیکن جناب! وہ کہاں سننے والے تھے۔ بس ایک ہی آواز تھی اسے باہر نکالو۔ گندے جانور کو، منحوس کو۔

    اس نے بہت کوشش کی مگر بے سود۔ اتنے میں وہ دل گرفتہ سوّر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’میں نے تو آپ کو پہلے ہی منع کیا تھا، پر آپ نہیں مانے، اب آپ کو میرا ایک کام کرنا ہی ہوگا۔‘‘

    اس نے پوچھا: ’’ہاں بولو، کیا کام ہے؟‘‘

    تب وہ بولا: ’’تم اس کلہاڑے سے میرے سر میں زخم لگا دو۔‘‘

    وہ نیک دل بہت گھبرایا اور کہنے لگا: ’’نہیں، نہیں میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ تم تو مظلوم ہو، ان سب نے تمہاری دل آزاری کی ہے، ان سب کو تو تم سے معافی مانگنا چاہیے، میں یہ کیسے کرسکتا ہوں۔‘‘

    تب سوّر نے کہا: ’’دیکھو! آپ نے مجھے بلایا تو میں آگیا، اب اگر آپ نے میرے سر میں کلہاڑا نہیں مارا تو میں آپ سے بہت ناراض ہو جاؤں گا۔

    آخر اس نیک دل شخص نے بہت اداس ہو کر اس کے سر میں کلہاڑا مار دیا۔ خون کی ایک دھار نکلنے لگی اور وہ چھوٹا سا سوّر کا بچہ جنگل کے راستے پر جانے لگا۔ خون کا فوارہ پھوٹا ہوا تھا اور راستہ اس سے رنگین ہو رہا تھا۔ سب لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ کسی کی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب آخر کیا ہے۔

    شادی کی تقریب ختم ہو گئی تھی۔ وہ نیک دل انسان مرہم پٹی لے کر اس کے پاس پہنچا۔ وہ روزانہ اس کی مرہم پٹی کرتا تھا۔ اس کی تیمار داری کرتا تھا اور ہمیشہ معلوم کرتا تھا کہ آخر یہ تم نے کیوں کیا؟ تو وہ ہنس کر ٹال دیتا اور کہتا بتاؤں گا کبھی، تمہیں ضرور بتاؤں گا۔

    پھر وہ دن بھی آیا جب وہ بالکل پہلے کی طرح بھلا چنگا ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس کے زخم کا نشان بھی ختم ہوگیا۔

    ایک دن اس نیک دل نے بہت اصرار کیا کہ اس راز سے پردہ اٹھاؤ۔ کیوں کیا تھا تم نے ایسا؟ تو سوّر بہت ہنسا اور کہنے لگا: کوئی ایسی بات نہیں ہے، بس اتنی سی تو بات ہے کہ: ’’دیکھو! کتنا کاری زخم تھا سر میں۔ مرہم پٹی کی، ٹھیک ہوگیا اور اب تو اس کا نشان بھی نہیں رہا، لیکن۔۔۔۔ !‘‘

    ہاں ہاں! بتاؤ تم خاموش کیوں ہوگئے۔ وہ نیک دل بے چین ہوگیا۔

    ’’ہاں۔۔۔۔! آپ نے دیکھا اس دن لوگوں نے کیسی کیسی باتیں کیں کہ میں گندا ہوں، منحوس ہوں، بہت بُرا ہوں۔ آپ نے سنی تھیں ناں؟ ‘‘

    ہاں ہاں! سنی تھیں۔

    ’’تو دیکھو! میرے دل میں آج بھی وہ زخم تازہ ہے۔ اس زخم کا خون رک ہی نہیں رہا۔ ہر وقت تازہ رہتا ہے۔ ہتھیار سے جو زخم لگے بھر جاتا ہے اور جو زبان سے زخم لگ جائے وہ کبھی نہیں بھرتا۔ کبھی بھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔ بس یاد رہتا ہے۔‘‘

    یہ کہانی سنا کر میری پیاری ماں جی مجھے کہتیں، مجھے اب بھی بہت اچھا لگتا ہے وہ جملہ: ’’دیکھو بیٹا! میٹھی زبان خوش بُو اور کڑوی زبان بدبو۔‘‘

    میری وہ ماں بہت بھولی بھالی سی تھیں ناں، کسی مکتب مدرسے میں کبھی گئیں ہی نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی کتاب پڑھی تھی لیکن صاحبو! اتنا تو میں ان کا کملا بچہ جانتا ہوں ناں کہ روشن تھا ان کا دل، بینا تھیں ان کی آنکھیں۔

    مجھے آپ سب سے ایک بات کہنی ہے، ہم کیوں اپنی زبان سے معصوموں کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔ ہم ان کو حوصلہ نہیں دے سکتے نہ دیں، بالکل بھی نہ دیں، لیکن یہ کیا کہ ہم سفاکی پر اتر آتے ہیں! دن بھر ہم کتنے اچھے اچھے لوگوں کو اپنی زبان سے مضروب کرتے رہتے ہیں۔

    مت کیجیے کسی کی مدد، بالکل بھی نہ کیجیے، لیکن انھیں ایذا بھی تو نہ پہنچائیے ناں۔

    خوش رہیے، آباد رہیے، شاد رہیے، سانس کی ڈور سلامت رہی تو فقیر اپنی بک بک جاری رکھے گا، سمے ہو تو سن لیجیے گا اور نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔

    فقیرانہ آئے صدا کر چلے

    میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے

    میرا سوہنا رب آپ کو سدا سکھی رکھے۔ اجازت دیجیے فقیر کو۔

    کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔

    بس نام رہے گا اﷲ جی کا۔