انٹر کے متنازع نتائج کی ذمہ دار وزارت تعلیم قرار، طلبہ کو گریس مارکس دینے کی سفارش

      کراچی: حکومت سندھ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے انٹر سال اوّل کے متاثرہ طلبہ کو گریس مارکس دینے کی سفارش کردی۔

    حکومت سندھ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے انٹر سال اوّل کراچی بورڈ کے متاثرہ طلبہ کو گریس مارکس دینے کی سفارش کرتے ہوئے طلبہ کے فیل ہونے کی وجوہات بیان کردی ہیں۔ تحقیقات کی روشنی میں نتائج کے تناسب میں کمی یا فیل طلبہ کی تعداد میں اضافے کی ذمہ داری بورڈ کے ساتھ ساتھ وزارت تعلیم سندھ پر بھی عائد ہورہی ہے۔

    کمیٹی کی سفارش پر گریس مارکس کتنے ہوسکتے ہیں اس کا تعین نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر ہی کیا جائے گا۔ مزید برآں سال 2023 کے نتائج میں طلبہ کی بڑی تعداد کے فیل ہونے کی تین بڑی وجوہات “نصاب کی تبدیلی کے بعد درسی کتابوں کی عدم دستیابی، مارکنگ اسکیم کا تاخیر سے اعلان، ایم سی کیوز کم کرنے اور ممتحن کی جانب سے سخت مارکنگ ” کو قرار دیا گیا ہے یہ تحقیقاتی رپورٹ پیر کو کسی وقت حکومت سندھ کے حوالے کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ انٹر سال اول کے نتائج 9 جنوری کو جاری ہوئے تھے۔ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے امتحانی نتائج 34 سے 36 فیصد تھے جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 8 سے 10 فیصد تک کم تھے اور طلبہ کی بڑی تعداد کے امتحانات میں ناکامی کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

    طلبا کے احتجاج پر نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں 3 فروری کو ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی تھی، کمیٹی میں آئی بی اے کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی اور سندھ ایچ ای سی کے سیکریٹری معین صدیقی کو بھی شریک کیا گیا تھا۔

    کمیٹی نے ایک ہفتے تک مسلسل تحقیقات کی۔ بورڈ افسران، ہیڈ ایگزامنر، ایکزامنر اور پیپر سیٹرز پر مشتمل 28 افراد کے انٹرویوز کیے جبکہ 300 کے قریب امتحانی کاپیوں کی از سر نو جانچ کرائی گئی جس کے بعد کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کی ہے۔

    ایکسپریس کو انتہائی بااعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ کم از کم تین یا اس سے زائد وجوہات کی بنا پر طلبہ کے نتائج متاثر ہوئے ہیں لہذا اپنی سفارشات میں کمیٹی نے کہا ہے کہ انٹر سال اول کے متعلقہ فیکیلٹیز کے طلبہ کو فزکس، کیمسٹری، زولوجی، بوٹنی، ریاضی اور شماریات کے مضامین میں علیحدہ علیحدہ گریس مارکس دے دیے جائیں جس میں 0 نمبر سے انتہائی سطح تک گریس مارکس دیے جائیں تاہم یہ گریس مارکس کتنے ہونے چاہیے اس کا تعین نگراں وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاہم ذرائع کہتے ہیں کہ ان گریس مارکس کے نتیجے میں طلبہ کی ایک مخصوص تعداد پاس ہوسکتی ہے جبکہ کچھ طلبہ کے گریڈز بھی بہتر ہوجائیں گے۔

    ذرائع کے مطابق کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ نتائج میں تناسب کی شرح گرنے یا طلبہ کی بڑی تعداد میں فیل ہونے کی سب سے اہم یا بڑی وجہ نصاب کی تبدیلی کے بعد درسی کتابوں کا سیشن کے آغاز سے نصف سیشن یا اس کے بعد تک دستیاب نہ ہونا ہے اور محکمہ ایجوکیشن کالج کی سطح پر نئے نصاب کے مطابق درسی کتاب چھاپ کر مارکیٹ تک پہنچا ہی نہیں سکا جبکہ بعض مضامین کی اردو میڈیم کی کتابیں تو سال کے آخر تک دستیاب نہیں ہوسکیں جس نے طلبہ کے مطالعے کو سخت متاثر کیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ اسی سے جڑی ایک وجہ اور بھی سامنے آئی کہ نصاب میں جو تبدیلی کی گئی اس کے بعد سائنسی مضامین کے اسباق میں اس قدر مشکل عنوانات شامل کردیے گئے جو جامعات میں بی ایس کی سطح پر بھی سال دوئم میں پڑھائے جاتے ہیں جس سے طلبہ ہم آہنگ نہیں تھے۔

    مزید براں مزید دو وجوہات میں سے دوسری وجہ ایکزامنر کہ انتہائی سخت مارکنگ بھی رہی اور جہاں 4 مرکس دینے کی گنجائش موجود تھی وہاں 2 مارکس دیے گئے جبکہ ایک اور وجہ پیپر پیٹرن کا انتہائی تاخیر سے اعلان بھی تھا اس اعلان کے تحت نئے پیٹرن میں ایم سی کیوز کا حصہ بھی 40 فیصد سے 20 فیصد کیا گیا جو کوویڈ کے بعد پہلی بار تھا اور ایم سی کیوز کا پورشن کم ہونے سے بھی طلبہ کی مارکنگ پر اثرات مرتب ہوئے۔ پیپر پیٹرن تمام بورڈز میں یکساں رکھنے کے لیے اس کا فیصلہ محکمہ تعلیم کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں کیا جاتا ہے جو کافی تاخیر سے بلائی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ فیکٹ فائنڈنک کمیٹی کی جانب سے تحقیقات مکمل ہونے اور رپورٹ میں متعلقہ نکات شامل کیے جانے کے بعد اب یہ معاملہ نگراں سندھ حکومت کے کورٹ میں آگیا ہے جبکہ نتائج کے تناسب میں کمی کی جو وجوہات سامنے آئی ہیں ان کا براہ راست تعلق اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ سے زیادہ محکمہ تعلیم سے جڑ گیا ہے اور بین السطور میں وزارت تعلیم سندھ اس بحران کی ذمے دار قرار پائی ہے۔