کس کے ساتھ ہوگیا ہاتھ

    شکر الحمدللہ عام انتخابات کا مرحلہ خیر و عافیت کے ساتھ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اس الیکشن پر بات کرنے سے پہلے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔ 1970 اور 1988 میں میرے باباجان حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ اور 2013 میں، میں نے خود صوابی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور 2018 کے الیکشن میں اپنے ضلع میں پوری طرح متحرک تھا۔

    1970 میں تو میں 5 سال کا تھا مگر بزرگوں سے سنا کہ پورے حلقہ میں مردوں کے تقریباً تمام پولنگ اسٹیشن پر جیتنے والے ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ عورتوں کے پولنگ اسٹیشنز پر ایجنٹس نہ ہونے کی وجہ سے کسی ایک پولنگ اسٹیشن پر بھی نہیں جیتے۔

    1988 کے الیکشن میں ڈاگئی باباجی رحمہ نے مردوں کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی مگر عورتوں کے چند پولنگ اسٹیشنز کے علاوہ تمام پولنگ اسٹیشنز پر ایجنٹس نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں جعلی ووٹ ان کے خلاف پڑے اور چند سو ووٹوں کے فرق سے انھیں شکست ہوئی مگر 1970 اور 1988 میں کسی قوت کے اثر انداز ہونے کا ذکر کسی سے نہیں سنا۔ 2013 میں، میں نے خود NA12 سے الیکشن لڑا ، بد ترین دھاندلی انتخابی عملے کی نگرانی میں ہوئی مگر عورتوں کے پولنگ اسٹیشنز پر وہ غدر مچایا گیا کہ الامان الحفیظ، کھلے عام ووٹوں کی خریداری جاری رہی۔ ہمارے ہزاروں ووٹرز صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک پولنگ اسٹیشنز پر خوار ہوتے رہے مگر ووٹ نہیں ڈالنے دئے گئے۔ RO اور DRO کو کئی بار شکایت کی مگر دھاندلی روکنے کی بجائے صاحب بہادر نے مجھے اندر کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کردیں۔

    قومی اسمبلی کے پورے حلقے میں مجھے صرف 11 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 14 ( آج کا فارم 45) ملے۔ 11 تاریخ کو الیکشن ہوا مگر رزلٹ 14 تاریخ کی صبح فجر کے وقت آیا اور ’’صاف و شفاف‘‘ نتائج برآمد کرنے والے کامیاب ہوئے۔ مجھ سمیت کسی امیدوار یا اسکے پولنگ ایجنٹ کو DRO آفس کے قریب نہیں آنے دیا گیا۔ 2018 کے الیکشن میں الیکشن ایجنٹ تھا‘ یہ ایک بد ترین الیکشن تھا۔ 5 بجے کے بعد سارے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ بوتھوں سے باہر نکال دیا گیا۔ ایک پولنگ اسٹیشن پر احتجاج کرنے والے جمعیت علمائے اسلام کے کارکن کا ہاتھ توڑ دیا گیا اور رات 12 بجے تک اسی حالت میں پولنگ اسٹیشن کے اندر زمین پر بٹھائے رکھا۔

    میں DRO آفس پہنچا تو گیٹ پر موجود حفاظتی عملے نے حکم دیا کہ چلے جاؤ یہاں سے ورنہ گولی مار دونگا، پھر پورے پاکستان کی طرح صوابی میں بھی RTS بیٹھ گیا، تحریک انصاف نے صوبائی اور قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

    2024ء کے الیکشن میں NA-20 کے لیے الیکشن ایجنٹ تھا۔ انتخابات کے دن یعنی 8 فروری صبح 8 بجے سے شام 5 بجے بلکہ رات 7 بجے تک کا موازنہ 2013 اور 2018 کے الیکشنز کے دن سے کروں تو اس سے زیادہ آزادانہ اور منصفانہ انداز میں ووٹ ڈالنے کا موقع کبھی نہیں دیا گیا، ہر پولنگ اسٹیشن پر موجود ہر پارٹی کے امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو باقاعدہ فارم 45 پر دستخط شدہ رزلٹ دیا گیا۔ اگر پاکستان کے ہر صوبائی اور ہر قومی اسمبلی کی نشست کے 100% فارم 45 کا آڈٹ کیا جائے تو سب سے زیادہ شور مچانے والے بری طرح پھنس جائیں گے۔

    متوقع نتائج کے بارے ہم الیکشن سے پہلے اپنے کالم “کس کے ساتھ ہوگا ہاتھ؟” میں لکھ چکے ہیں کہ جو ہوا ہونا ہی یہی تھا۔ صرف نواز شریف نہیں سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا تھا اور اکثریت اپنی جیت کی منتظر تھی۔ ان انتخابات کے حوالے سے ہم ان الفاظ میں لکھ چکے ہیں “الیکشن2024ء میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ یعنی کم و بیش تین کروڑ فریش ووٹرز فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔

    نئے شامل ہونے والے ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کا جنون ہوتا ہے اس لیے وہ ہر حال میں پولنگ اسٹیشن تک جاتے ہیں اور ووٹ ڈالتے ہیں” سب نے دیکھا کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر 18 سے 25 سال کے نوجوان ہی نظر آئے اور ان ہی کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اگر دوسری جماعتوں نے تحریک انصاف کی طرح نسل نو اور خاص بچوں پر توجہ نہیں دی تو آیندہ الیکشن میں صورتحال اس سے زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ آج 13 سے 17 سال تک کے اکثر بچوں کے سروں پر پی ٹی آئی کی ٹوپی اور گلے میں دو رنگہ دوپٹہ لے کر خان کے ترانے گا رہے ہیں اور 5 سال بعد آج کے یہ بچے 4 کروڑ نئے ووٹرز کی شکل میں پولنگ اسٹیشنز پر موجود ہوں گے اور یہ ایک ایسا طوفان ہوگا جو کسی کے کنٹرول میں بھی نہیں آئیگا۔ ہوش کے ناخن لے کر ہر سیاسی جماعت کو اپنا ایک فعال “اطفال ونگ” بنانا پڑے گا ورنہ سب کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ ہوتے رہیں گے۔

    قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق کوئی ایک جماعت سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 92 ، پاکستان مسلم لیگ نون 75، پاکستان پیپلز پارٹی 54، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17، حقیقی آزاد (جن کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ) 9، جے یو آئی 4، مسلم لیگ ق 3، بلوچستان نیشنل پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی 2، 2، مجلس وحدت المسلمین، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ضیاء کو ایک ایک سیٹ ملی۔ پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون 138، پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 116، آزاد 22، پاکستان پیپلز پارٹی 10، مسلم لیگ ق 7، استحکام پاکستان پارٹی، تحریک لبیک پاکستان اور مسلم لیگ ضیاء کو ایک ایک سیٹ ملی۔

    پنجاب میں قوی امکان ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون ہی حکومت بنائے گی۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد 84، حقیقی آزاد 8، جے یو آئی 7، مسلم لیگ نون 5، پیپلز پارٹی 4 ، جماعت اسلامی پاکستان 2، پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین 2 اور اے این پی کو ایک سیٹ ملی۔ یوں ایک بار پھر کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی 83، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو 28، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد 11، آزاد3 ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 3 اور جماعت اسلامی پاکستان کو 2 سیٹیں ملیں۔

    یوں سندھ میں بھی ایک بار پھر پیپلز پارٹی ہی حکومت بنائے گی۔ بلوچستان اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی 11، جے یوآئی اور مسلم لیگ نون کو 10، 10، آزاد 5، بلوچستان عوامی پارٹی 4، نیشنل پارٹی 3، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کو 2، 2، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، حق دو تحریک، جماعت اسلامی پاکستان، پاکستان راہ حق پارٹی کو ایک ایک سیٹ ملی۔ یوں بلوچستان میں حسب روایت ایک بار پھر مخلوط حکومت بنے گی۔ جو ملک کو درپیش بحرانوں کو ختم کرنے کے بجائے خود ایک بحران ثابت ہوگی۔

    ہم گزشتہ دو سال سے مسلسل لکھتے آرہے ہیں اور واقعات و شواہد نے ثابت کر دیا کہ یہ پوری بساط ہی آصف علی زرداری کے لیے بچھائی گئی تھی اگر آصف زرداری چاہیں تو بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمٰی کی کرسی سے چند قدم کے دوری پر ہیں اگر بلاول وزیراعظم نہیں بنے تو باقی سب کچھ پیپلزپارٹی کا ہوگا۔ لگتا ہے زرداری کے علاوہ سب کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔