ایچ آر سی پی نے 8 فروری کے انتخابات کی ساکھ، شفافیت پر سوال اٹھا دیا

    ایچ آر سی پی نے کہا کہ مبصرین کو نتائج کی تیاری کے عمل جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی—:فوٹو:فائل

    ایچ آر سی پی نے کہا کہ مبصرین کو نتائج کی تیاری کے عمل جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی—:فوٹو:فائل

     اسلام آباد: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق  (ایچ آر سی پی) نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے دوران ہونے والی بدانتظامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں اس کی شفافیت اور ساکھ پر سوال اٹھایا ہے۔

    ایچ آر سی پی نے رپورٹ میں بتایا کہ اس کے انتخابی مبصرین کی ٹیم نے 51 حلقوں میں انتخابی عمل کا جائزہ لیا اور رپورٹس انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ پولنگ کے دن ملک بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند ہونے اور پولنگ کی معلومات میں من مانی تبدیلیوں کی وجہ سے ووٹروں، خاص طور پر معذوری کے شکار افراد، بزرگوں، کم آمدنی والے افراد اور ان خواتین کی پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی متاثر ہوئی اور ان کی نقل و حرکت محدود رہی۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی نتائج کے اعلان میں طویل تاخیر خاص طور پر باعث تشویش ہے لیکن مجموعی طور پر پولنگ کا عمل شفاف اور پرامن رہا۔

    ایچ آر سی پی نے بتایا کہ پولنگ کا عملہ اچھی طرح سے تیار اور مناسب ساز و سامان سے لیس تھا، تقریباً تمام مواقع پر پولنگ ایجنٹوں اور امیدواروں کو پولنگ سے قبل خالی بیلٹ بکس دکھائے گئے اور پریذائیڈنگ افسرنے ووٹر کوبیلٹ پیپر  دینے سے پہلے ہر بیلٹ پیپر کے پچھلے حصے پر مہر لگائی اور دستخط کیے، بیلٹ باکس ہر وقت سب کی نظروں کے سامنے موجود تھا اور ووٹروں کو اپنے بیلٹ پیپرز پر رازداری سے مہر لگانے کی اجازت تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: کمشنر راولپنڈی کا الیکشن میں دھاندلی کا اعتراف، مستعفی ہونے کا اعلان، خود کو پھانسی دینے کا مطالبہ

    رپورٹ میں کہا گیا کہ پولنگ کے بعد کا عمل واضح طور پر غیر اطمینان بخش تھا، ایچ آر سی پی نے جن پولنگ اسٹیشنوں کا مشاہدہ کیا ان میں سے ہر پانچویں پولنگ اسٹیشن  میں  پریزائیڈنگ افسر نے  کسی نمایاں جگہ پر ووٹوں کی گنتی کا بیان چسپاں نہیں کیا یا  اس نے ریٹرننگ افسر اور ای سی پی کو نتائج کی تصویر نہیں بھیجی۔

    نتائج کی تیاری کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بہت سے واقعات میں یہ الزامات بھی سامنے آئے کہ ریٹرننگ افسر کا اعلان پریزائیڈنگ افسر کی گنتی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ امیدواروں، پولنگ ایجنٹوں اور مبصرین کو عبوری نتائج کی تیاری کے عمل کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔

    ایچ آر سی پی نے اپنے مبصرین کی رپورٹس کے پیش نظر سفارش کی ہے کہ ایک پارلیمانی باڈی  کی نگرانی میں 2024 کے انتخابات کی  آزادانہ تحقیقات  کی جائے اور تجویز دی ہے کہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا انتخابی عمل یا اس کے نتائج کے انتظام میں کوئی کردار نہیں ہونا  چاہیے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ پارلیمنٹ کو نگراں حکومت کی اسکیم کی افادیت پر بھی بحث کرنی چاہیے، پولنگ کے دن اور پولنگ ختم ہونے کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بلا رکاوٹ دستیاب ہونی چاہئیں۔

    مزید بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)  کو الیکشنز ایکٹ 2017 کے مطابق فارم 45، 46، 48 اور 49  شائع کردینے چاہئیں،  ناراض سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کی جانب سے درخواستیں موصول ہونے پر کمیشن کو خاص طور پر ایسے معاملات میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دینا چاہیے جہاں جیت کا مارجن کم ہے اور جہاں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیت کے مارجن سے زیادہ ہے۔

    ایچ آر سی پی نے بتایا کہ2024 کے انتخابات کی شفافیت پر نہ صرف ای سی پی میں اہلیت کی کمی تھی بلکہ غیر جمہوری حلقوں کے مسلسل دباؤ اور نگراں حکومت کے قابل اعتراض فیصلوں، جس کی ایچ آر سی پی نے گزشتہ سال بارہا نشان دہی کی تھی،  کی وجہ سے بھی  سمجھوتہ کیا گیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ اب  تمام فریقین کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل، بامعنی اور جامع سیاسی بات چیت کے ذریعے اجتماعی طور پر سویلین بالادستی برقرار رکھیں اور اس کی حفاظت کریں، درحقیقت ان انتخابات کا سب سے بڑا نقصان کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ جمہوری اقدار، قانون کی حکمرانی اور عام لوگوں کی امنگوں کا ہوا ہے۔