ایفائے عہد کی تکمیل اور اس کی اہمیت

    اسلام کی بے شمار بہترین صفات میں سے ایک صفت ایفائے عہد یا وعدے کی پابندی بھی ہے۔ وعدہ کی پابندی ایک مسلمان کے دیگر فرائض میں سے ایک بڑا فرض ہے۔ اگر کوئی انسان وعدہ کی پابندی کی صفت سے خالی ہے تو وہ انسانیت کے ایک بڑے شرف سے عاری سمجھا جاتا ہے۔

    ایفاء کے معنی ہیں پورا کرنا، مکمل کرنا، عہد ایسے قول اورمعاملے کوکہا جاتا ہے جو کہ طے ہو یعنی کہ ایفائے عہد’’وعدہ پورا کرنا‘‘ اپنے قول کو نبھانا، اس پرقائم رہنا ہے۔ وعدہ اورعہدکی پابندی کرنا ایفائے عہد میں شامل ہے، وعدہ کی تکمیل نہ کرنے سے آدمی کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے اعتبار اور اعتماد کے بغیر خوش گوار معاشرتی زندگی گزارنا محال ہے۔

    آج ہمارے انسانی معاشرے میں جو خرابیاں رواج پا رہی ہیں ، ان میں ایک بڑی خرابی جس نے معاشرے کو بے سکونی اور بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار کیا ہوا ہے، وہ وعدہ خلافی ہے لوگ معاہدوں کو اہمیت نہیں دیتے، وعدہ خلافی معمول بن چکا ہے، تمام باہمی معاملات بالخصوص تجارت میں بدعہدی کی وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ ہر شخص اس میں مبتلا نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں تنازعات اور لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہیں ، باہمی میل جول اور محبت و الفت کی جگہ رنجشیں کدورتیں اور عداوتیں جنم لی رہی ہیں ۔

    آج کی دنیا میں تجارت و معیشت میں ایفائے عہد ، وعدے کی تکمیل کو پورا کرنا ایک بنیادی ضرورت اور تجارت و معیشت کے استحکام کی ضمانت ہے ۔ کاروباری معاہدوں پر گویا تجارت و معیشت کی کامیابی کا انحصار سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس لحاظ سے انسانیت کی اسلام نے سب سے زیادہ راہنمائی کی ہے۔

    اسلام کی تعلیمات اور حضورﷺ کا اُسوہ حسنہ ہمارے لیے نمونہ ہے ، آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کا ایک روشن و درخشاں باب دیانت و امانت ہے، آپﷺ نے اسلام سے قبل ایک دیانت دار تاجر کی حیثیت سے خوب شہرت حاصل کی۔ قریش مکہ میں آپﷺ صادق و امین کے طور پر مشہور تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اور اپنے عہد کو جب وہ عہد کر لیں پورا کرنے والے ہیں (سورۃالبقرہ) ایک مقام پر فرمایا گیا ’’اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھنے والے ہیں‘‘ (سورۃالمعارج)’’سُورۃ النحل‘‘ میں انتہائی وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا اور اللہ کا نام لے کر جب تم باہم عہد کر لو تو اسے پورا کرو، اور قسموں کو پکی کر کے توڑا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کو تم نے اپنے اوپر ضامن ٹھہرایا ہے بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ جانتا ہے۔

    خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت پر یہ فرمایا ہے ’’بے شک اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا (سورہ آل عمران) حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاؑئ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا‘‘ (ابن ماجہ/السنن) اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ؑ سے بھی پختہ عہد لیا ہے، جس کی انہیں پابندی کرنا ہو گی۔

    ارشاد ہے:’’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسی ابن مریمؑ سے بھی، سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے، اور کافروں کے لئے تو اس نے دردناک عذاب مہیا ہی کر رکھا ہے‘‘ (الاحزاب، 8) یعنی اللہ تعالیٰ کا تمام پیغمبروں سے بشمول محمد ؐ یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ ہم حکم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے۔ اور اللہ تعالیٰ محض عہد نہیں لیتا بلکہ وہ اس بارے میں سوال بھی کرنے والا ہے کہ اس کی کس حد تک نگہداشت کی اور جنہوں نے سچائی کے ساتھ اس کے عہد کو وفا کیا ہو گا وہی صادق العہد کہلائیں گے۔

    اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والوں کی مذمت کی ہے، اور ایسے لوگوں کو حیوانات سے تشبیہہ دی ہے، فرمایا’’ یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں (خصوصاً) ان میں سے وہ لوگ جن سے تو نے معاہدہ کیا پھر ہر موقع پر وہ اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے‘‘۔ (الانفال،55-65) اور اگر آپ کا کسی قوم سے لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ ہو ، اور ان کے حالات سے ان کی خیانت کو محسوس کریں۔

    اگرچہ علانیہ خیانت کا ظہور نہیں ہوا، تو ان کا عہد ان کی جانب پھینک دیں ، اور اعلان کر دیں کہ ان کے اور ہمارے مابین اب کوئی عہد باقی نہیں رہا ، تاکہ دونوں گروہوں کو اس نئی حالت کا اچھی طرح پتا چل جائے، اور ان کے سامنے عہد کے ٹوٹ جانے کا واشگاف اعلان کئے بغیر کوئی بھی پیش قدمی یا کوشش غداری کہلائے گی۔ رسول اللہ ﷺ یہود سے کیے ہوئے عہدوں کا بھی سب سے بڑھ کر پاس کرتے ، خود یہود نے اس پر گواہی دی کہ آپؐ عہد شکن تھے نہ کبھی عہد کے خلاف کیا۔

    ہرقل نے جب ابو سفیان کو اپنے دربار میں بلا کر رسول ِکریم ؐ کے بارے میں سوالات کیے، اس وقت ابوسفیان رسول اللہ ؐ کا دشمن تھا، اور ہرقل نے آپؐ کے بارے میں کئی سوال کیے، اس نے پوچھا: کیا آپؐ عہد شکن ہیں؟ اس نے جواب دیا: نہیں (رواہ البخاری) حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ابو سفیان نے مجھ سے کہا کہ ہرقل نے مجھ سے پوچھا کہ وہ (یعنی رسول اللہؐ) تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ تو میں نے کہا: ’’وہ نماز کی ادائیگی، سچائی، پاکیزگی اور عہد پورا کرنے اور امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں‘‘ اس نے کہا ’’یہی ایک نبی کی صفت ہے۔ (رواہ البخاری،2681) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیں، اللہ ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے‘‘ (رواہ الطبرانی ،7978) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یقیناً حسنِ عہد ایمان سے ہے‘‘۔

    (رواہ الطبرانی، جامع الصغیر2258) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ جب بھی خطبہ دیتے ضرور فرماتے: جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں، اور جو عہد کی پابندی نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں‘‘ (رواہ احمد) مسلمانوں کی تاریخ مسلمانوں اور غیر مسلموں سے ایفائے عہد کی زریں مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف امن میں بلکہ حالتِ جنگ میں بھی عہد کو پورا کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں ’’مجھے غزوہ بدر میں حاضر ہونے سے اس کے سوا کسی چیز نے نہیں روکا کہ میں اور میرے والد گائے کے بچھڑے پر سوار تھے، تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے: تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ہم وہاں نہیں جا رہے، ہم تو مدینہ جا رہے ہیں۔

    تو انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر عہد لیا اور اسے پختہ باندھا کہ ہم مدینہ ہی جائیں گے اور جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔ جب ہم رسول اللہ ؐ کے پاس آئے اور انہیں واقعہ بتایا تو آپؐ نے فرمایا: تم دونوں واپس لوٹ جاؤ ان سے کیے ہوئے عہد کو نہ توڑو اور ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگو‘‘ (رواہ مسلم،1787) حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کر لے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا، مگر نہ کر سکے اور وعدے پر نہ پہنچ سکا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں (سنن ابی داؤد) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص وعدے کی پاس داری نہیں کرتا، وہ دین داری کے اعتبار سے بہت کمزور ہے۔

    (سنن الکبریٰ للبیہقی) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار (عادات و صفات) جس شخص میں ہوں، وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان صفات میں سے ایک صفت ہو تو اس میں نفاق اسی کے بقدر ہے، یہاں تک کہ وہ اس (عادت) کو چھوڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی جھگڑا وغیرہ ہو جائے تو گالی گلوچ پر اتر آئے (صحیح بخاری) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ دیگر متعدد احادیث میں بھی وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور وعدہ خلافی کو سخت گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

    حضرت انسؓ کی یہ روایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ نبی اکر م ﷺنے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو، اس کا دین دین نہیں جسے عہد کا پاس و لحاظ نہ ہو‘‘ (احمد ابن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، الکتب العلمیہ، بیروت 1999، ج 6، ص 471) حقیقت یہ کہ ایفاے عہد کے باب میں بھی نبی کریم ﷺکا اسوہ مبارکہ مثالی رہا ہے۔ آپؐ پوری زندگی سچا ئی، ایفاے عہد اور امانت داری کا مظاہرہ بلاکسی امتیاز سب کے ساتھ کرتے رہے۔

    غزو ہ بدر کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے مسلم فوجیوں کی تعداد میں کمی گوارا کر لی لیکن کفار مکہ (جنھوں نے دوصحابیوں کو پکڑنے کے بعد اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد جنگ میں شریک نہ ہوں گے) سے کیے گئے وعدے کو توڑنا گوارا نہ کیا ۔ ان دونوں صحابہ ؓ کو غزوہ میں شرکت کی اجازت نہ دی اور یہ کہہ کر انھیں واپس بھیج دیا کہ ہم کو صرف اللہ کی مدد درکار ہے (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حراً) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد تھے جب آپ ﷺ نے فتنہ کا ذکر کیا۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا جب تم لوگوں کو دیکھو ان کے عہد، وعدے خراب ہو گئے ہیں۔

    ان کی امانتیں کم ہوگئی ہیں اور وہ اس طرح ہو جائیں آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا یعنی ان کے معاملات خلط ملط ہو جائیں گے (عبداللہ بن عمرو) بیان کرتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا تو عرض کی، اللہ تعالیٰ مجھے آپ ﷺ پر قربان کرے، ان حالات میں کیا کروں؟ فرمایا اپنے گھر میں رہو، زبان کو قابو میں رکھو، جو جانتے ہو لے لو اور جو احکام نہیں جانتے ہو اسے چھوڑ دو اور تم خصوصی طور پر اپنے ذمہ دار ہو اور عام لوگوں کے معاملہ کو اپنے ذمہ نہ لو (سنن ابی داؤد، جلد سوئم کتاب الملاحم:4343) اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج معاشرے میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مروّج ہوگئی ہیں اور لوگوں کے ذہن میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قرض وغیرہ کے لین دین ہی سے وعدے کا تعلق ہے، حالانکہ ہم زندگی کے تمام مراحل میں عہد و پیمان سے گزرتے ہیں، معاملات جتنے بھی ہیں، نکاح، خرید و فروخت، شرکت اور پارٹنر شپ، دو طرفہ وعدہ ہی سے عبارت ہے۔

    اسی لئے معاملات کو عقد کہا جاتا ہے، عقد کے معنی دو طرفہ وعدہ اور معاہدے کے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ایفائے عہد کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ نکاح کے ذریعے مرد وعورت کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس کے اخراجات کی ادائیگی کا عہد کرتا ہے اور عورت جائز باتوں میں شوہر کی فرماں برداری کا وعدہ کرتی ہے، لہٰذا اگر شوہر بیوی کی حق تلفی کرے یا بیوی شوہر کی حکم عدولی تو نہ صرف حق تلفی اور حکم عدولی کا گناہ ہو گا، بلکہ وہ وعدہ خلافی کے بھی گناہ گار ہوں گے۔

    بیچنے والا گاہک سے مال کے صحیح ہونے اور قیمت کے مناسب ہونے کا وعدہ کرتا ہے، اگر وہ گاہک سے عیب چھپا کر سامان بیچے یا قیمت میں معمول سے زیادہ نفع وصول کر لے اورگاہک کو جتائے کہ اس نے معمولی نفع پر سامان فروخت کیا ہے، تو یہ عقد تجارت کے ذریعے فریقین ایک دوسرے کے ساتھ جو عہد کرتے ہیں، اس کی خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وعدہ کی تکمیل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے اور جناب نبی کریمﷺکے بتائے گئے احکامات پر عمل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین