شہر دِلوں میں بس جاتے ہیں ؛ نہ سائرن بجاتی پولیس کی گاڑیاں، نہ کہیں ٹریفک پولیس

    (ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ چھٹا پڑاؤ)

    اورحان پاموک Orhan Pamuk (نوبل انعام یافتہ) اپنے ناولMy Name is red’’سرخ میرا نام‘‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’بہرحال میں اس حقیقت سے واقف ہوں جب آپ کو کوئی شہر بہت پسند ہو اور آپ اس کے گلی کوچوں میں اس طرح پیدل گھومتے رہے ہوں کہ روح تو ایک طرف آپ کا جسم ان گلیوں سے اتنی تفصیل سے واقف ہو کہ اتنے برسوں بعد افسردگی کے سحر میں شاید جیسے ہلکی برف باری کی اداسی نے مہمیز دی ہو، آپ کو پتا ہی نہیں چلے گا۔ آپ کی ٹانگیں خود بخود ہی آپ کو پسندیدہ علاقے میں لے جائیں گی۔‘‘

    سفر ہو یا گھر میں جب کچھ لکھ رہی ہوتی ہوں تو ساتھ کچھ پڑھ بھی رہی ہوتی ہوں بلکہ پڑھتی زیادہ ہوں، لکھتی کم ہوں۔ اب جو اورحان پاموک کا ناول پڑھنا شروع کیا تو اس جگہ پہنچ کر احساس ہوا کہ واقعی جہاں آپ گلیوں میں پیدل چلتے رہے ہوں یا وہ شہر آپ کی جائے پیدائش بھی ہو یا جس شہر میں آپ کا زیادہ وقت گزرا ہو وہ شہر آپ کی روح میں بس جاتا ہے۔ جیسا کہ میرے لیے میرا شہر کراچی ہے۔ کہ ’’میں جہاں رہوں، میں جہاں بھی رہوں تیری یاد ساتھ ہے۔‘‘

    کراچی کے بعد جو شہر مجھے بہت پیارا لگا وہ راولپنڈی ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہاری روح تو کراچی ہے تو دل میں کون سا شہر بسا ہوا ہے تو وہ راولپنڈی ہے۔ یہاں میری اسکول کی زندگی کا بہت بڑا حصہ گزرا۔ مجھے اس کی گلیاں، راستے بہت یاد آتے ہیں، جہاں سے گزر کر ہم اسکول جاتے تھے۔

    کھیل کود، موسم، بارشیں اور سردیاں سب دل میں بسے ہوئے ہیں۔ وہی شہر دلوں میں بستے ہیں اور روح میں اترجاتے ہیں جہاں ہم نے کھڑکیوں سے برستی بارشیں، کڑکتی بجلیاں، دھند میں لپٹی صبحیں اور سرمئی شامیں دیکھی، ہوں ورنہ جن شہروں میں ہم مہمان بن کر جاتے ہیں، ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، گھومتے پھرتے اور تفریح کرتے ہیں، وہ شہر بے شک کتنے بھی خوب صورت، پرفضا ہوں دلوں میں نہیں بستے، صرف نظروں کو اچھے لگتے ہیں۔ مگر استنبول میں داخل ہوتے ہی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ لوگ، بازار ، ہوٹل، مساجد سب کچھ اپنائیت کا احساس لیے ہوئے تھا۔

    ہم اس طرح استنبول میں گھوم رہے تھے جیسے کراچی میں گھومتے رہتے ہیں۔ بے شک کراچی میں جرائم کی شرح پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہے مگر ہمارے شہر کے لوگ سارا دن کام کرنے کے بعد رات گئے تک ہوٹل اور ریسٹورینٹ آباد رکھتے ہیں اور تفریح گاہوں اور باغات میں ہما وقت گہماگہمی رہتی ہے، بالکل اسی طرح استنبول میں رات گئے تک ہوٹل آباد رہتے ہیں۔

    ہم بھی رات کو کھانا کھاکر لوٹے تو راشد صاحب کو فون کیا۔ راشد صاحب استنبول یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار ہیں ان کا نمبر خلیل طوقار صاحب ڈائریکٹر یونس ایمرے انسٹیٹوٹ نے دیا تھا کہ آپ استنبول یونیورسٹی کا وزٹ کرلیں۔ اس وقت تو راشد صاحب سے بات نہیں ہوسکی مگر صبح ہی ان کا فون آگیا کہ ہم ساڑھے گیارہ بجے آپ کا انتظار کریں گے۔ ہم نے انہیں میسج کرکے بتادیا تھا کہ ہم صرف چار دن استنبول میں ہیں پھر انقرہ چلے جائیں گے۔

    راشد صاحب نے تفصیل سے بس اور ٹرام کا روٹ بھی بتادیا تھا اور کہا تھا کہ آپ کے لیے فاتح سے ٹرام کے ذریعے یونیورسٹی آنا زیادہ آسان ہوگا۔ اس وقت تک ہم نے ٹرام کا سفر نہیں کیا تھا اس لیے ہم نے سوچا بس سے چلتے ہیں یہ زیادہ آسان ہوگا۔

    یقیناً کسی شہر کو پیدل چل کر دیکھنے کا جو مزہ ہے وہ بہرحال بہترین ہوتا ہے۔ آج پیر تھا اور دکانیں کھل گئیں تھیں اور لوگ اپنے کام کاج اور طالب علم اسکول، کالج ، یونیورسٹی جہاں وہ پڑھتے ہوں گے، اس طرف رواں دواں تھے۔ استنبول میں گلیاں اور راستے بہت طویل ہیں اور چڑھائیاں اور اترائیاں بھی بہت ہیں۔

    زیادہ تر طالب علم اور کام کرنے والے اسکوٹی استعمال کرتے ہیں، جو ٹرام اور بس اسٹینڈ کے ساتھ بنے اسٹاپ پر لاک کرکے اپنی بس یا ٹرام لے لیتے ہیں۔ الیکٹرک موٹرسائیکل بھی استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ وہاں گاڑیاں بہت کم ہیں اس لیے ٹریفک جام تو کہیں نظر نہیں آیا۔

    بہت زیادہ رش تو بسوں، ٹرام وغیرہ میں نظر آیا۔ ہمارا یونیورسٹی پہنچنے کا وقت ساڑھے گیارہ بجے کا تھا اور ہمیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہاں پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا، ہم دس بجے ہوٹل سے نکلے اور دس منٹ میں Amenouکے ٹرمینل پر پہنچ گئے۔ لیکن ہم غلطی سے ایک اسٹاپ پہلے اترگئے۔

    یہ اسٹاپ ایک طویل پل جو میٹرو کا اسٹیشن بھی تھا، وہاں بنا ہوا تھا اور ہمیں باہر جانے کے لیے سیڑھیوں سے اوپر جانا تھا۔ یہ راستہ بالکل سب وے جیسا تھا اور اس سب وے کی طویل راہ داری میں سائیکل اور اسکوٹی بازار تھا۔ بلاشبہہ اس بازار میں سو سے زیادہ دکانیں تو ہوں گی۔ عزیز کو یہاں آکر بہت اچھا لگا۔ اس نے کئی دکانیں دیکھ ڈالیں۔ ایک سے ایک عمدہ سائیکل اور اسکوٹی مگر سب ترکی کی بنی ہوئی تھیں۔ ایک بھی غیرملکی سائیکل نہیں تھی۔

    ایک دکان دار سے جو تھوڑی بہت انگریزی جانتا تھا اس سے عزیز نے پوچھا کہ آپ کے یہاں غیرملکی سائیکلیں کہاں ملیں گیں؟ وہ کہنے لگا اس مارکیٹ میں کوئی باہر کی بنی سائیکل نہیں ملتی اور مجھے معلوم نہیں کہ کہاں ملتی ہیں اور ہمارے ملک کی بنی سائیکلیں اور اسکوٹی بہترین اسٹینڈرڈ کی ہوتی ہیں، آپ لے سکتے ہیں۔ ہم نے استنبول میں ہر مارکیٹ میں یہی رویہ دیکھا۔ دکان دار صرف ترکی کی چیزیں خریدنے پر اصرار کررہے تھے۔

    جب سائیکل مارکیٹ سے نکل کر اوپر کی طرف آئے تو یہ بہت خوب صورت علاقہ تھا۔ سرسبز گھاس کے دور تک پھیلے قطعے، اونچے لمبے اور پھیلے ہوئے درخت، ہر قطعے پر باغ کا گمان ہورہا تھا۔ چوڑی سڑکیں اور موڈرن انداز کی بنی ہوئی بلڈنگ۔

    ہم سڑک کراس کرکے ایک بلڈنگ کے سامنے آگئے۔ یہ پولیس ہیڈ کوارٹر تھا، جس کی چھے سات منزلہ عمارت پر اوپر سے نیچے تک پولیس کے ان شہید جوانوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں جنہوں نے اس وقت ملٹری کا راستہ روکنے کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں جب طیب اردگان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تھی۔

    اسی عمارت کے سامنے ایک تالاب کے کنارے مجسمے لگے ہوئے تھے۔ کوئی تالاب کے کنارے وضو کررہا تھا، کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ کوئی نماز پڑھ رہا تھا۔ کوئی تقریر کررہا تھا۔ پہلی نظر میں تو ان مجسموں کو دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ یہ بلو مسجد کا پچھلا حصہ تھا اور مسجد کا ایک دروازہ ادھر بھی کھلتا تھا مگر ابھی ہمیں مسجد کی طرف نہیں جانا تھا، ہماری منزل تو استنبول یونیورسٹی تھی جس کا بیرونی دروازہ بھی سامنے تھا، مگر ہمیں تو دوسرے دروازے سے جانا تھا جس سے پہلے ایک میوزیم تھا۔ یہ استنبول کا خوب صورت ترین علاقہ ہے۔ چوڑی سڑکیں، فٹ پاتھ اور خوب صورت دکانیں اور ہوٹل مگر فاصلے بہت زیادہ تھے۔ چلنا بہت پڑ رہا تھا۔ راشد صاحب نے جو نقشہ فراہم کیا تھا ہم تو اس کے حساب سے چل رہے تھے۔

    ہم جب یونیورسٹی پہنچے تو یہاں ہمیں پھر اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ہمیں بس کی بجائے ٹرام سے آنا چاہیے تھا کیوںکہ ٹرام اسٹیشن یونیورسٹی کے گیٹ کے بالکل سامنے تھا، لیکن اگر ہم یہ غلطی نہ کرتے تو اتنا خوب صورت علاقہ اور پولیس ہیڈ کوارٹر نہیں دیکھ سکتے تھے، کیوںکہ اس علاقے سے نہ تو کوئی بس گزرتی ہے نہ ٹرام صرف بڑی بڑی عمارتیں اور سڑکیں اور باغات ہیں۔ البتہ یونیورسٹی کے آس پاس کافی رش تھا۔

    ہمیں میوزیم کے برابر والے گیٹ سے جانا تھا۔ یہ ایک پرانے طرز کی عمارت تھی۔ ہم نے راشد صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دی اور آس پاس کا جائزہ لینے لگے۔ سامنے ایک لمبے اور بھاری رومن طرز کے ستونوں والا محرابی راستہ تھا جو ایک باغ کی سمت جاتا تھا، جہاں جا بجا سنگی بینچوں پر طالب علم بیٹھے ہوئے تھے۔

    ہم جس جگہ کھڑے ہوئے تھے وہاں کافی چوڑائی لیے سیڑھیاں جو سفید پتھر سے بنی ہوئی تھیں اور ان کے آس پاس رومن طرز کے کافی گولائی لیے ہوئے اونچے ستون تھے جن کو دیکھ کر کسی ارینا کا تاثر آرہا تھا۔ ہم نے کافی عرصہ پہلے ایک فلم Delilah Samson and دیکھی تھی، مجھے یہ جگہ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہاں ہی اس فلم کی شوٹنگ ہوئی ہوگی اور یہاں ہی کسی ستون سے Samson کو باندھ کر اس کے بال کاٹ کر اس سے طاقت چھینی گئی ہوگی۔

    مگر اس یونیورسٹی میں تو علم کے طاقت ور لوگوں سے ملاقات ہونی تھی جو علم کی طاقت کو تقسیم در تقسیم کررہے ہیں اور وہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ استنبول یونیورسٹی کا شمار دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہماری ملاقات راشد صاحب سے ہوئی۔ انہوں نے ہمارا استقبال بہت گرم جوشی سے کیا اور اپنے شعبۂ اردو میں لے گئے۔ حالاںکہ ان دنوں یونیورسٹی میں چھٹیاں تھیں مگر لائبریری اور PHDکرنے والے اسکالر موجود تھے۔

    تھوڑی دیر بعد ہی ایک خاتون اندر داخل ہوئیں شکل و صورت اور لباس سے تو وہ ترکش لگ رہی تھیں مگر اردو بڑی روانی سے بول رہی تھیں۔ آتے ہی معذرت کرنے لگیں کہ مجھے آنے میں دیر ہوگئی ان کا انداز اس قدر دوستانہ تھا کہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہماری پہلی ملاقات ہے، یہ ڈاکٹر آرزو تھیں۔ نہایت ہی خوش مزاج اور زندگی سے بھرپور ڈاکٹر آرزو کئی بار پاکستان آچکی ہیں اور لاہور، اسلام آباد اور شمالی علاقوں کی بھی سیر کرچکیں مگر کراچی کبھی نہیں آئیں۔

    ان کو جب معلوم ہوا کہ ہم استنبول یونیورسٹی آرہے ہیں جب سے وہ ہم سے ملاقات کا بے تابی سے انتظار کررہی تھیں۔ اس دوران راشد صاحب نے چائے بھی بنالی اور سامنے بسکٹ بھی رکھ دیے۔ آج تین دن بعد دودھ پتی والی چائے پی رہے تھے۔ ورنہ جب سے ترکی آئے تھے ترکش چائے پی رہے تھے جو واقعی بہترین ہوتی ہے مگر اپنی دودھ پتی والی چائے کا علیحدہ مزہ ہے۔

    اس دوران جلال الدین صوئیدان صاحب بھی تشریف لے آئے انہیں حکومت

    پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ وہ علامہ اقبال پر اتھارٹی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ ڈائریکٹر شرقیات اسٹڈی سینٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ہم نے اپنی کتابیں ان کی نذر کیں۔ یہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ بہت دیر تک ہم لوگ پاکستان ترکی کے تعلقات، ادبی، ثقافتی سرگرمیوں پر بات کرتے رہے۔

    کافی وقت گزر گیا اور احساس ہی نہیں ہوا۔ ایک اور تصویری سیشن ہوا جس میں یونیورسٹی کے طالب علم بھی شریک ہوئے۔ جو طالب علم وہاں موجود تھے وہ بھی ہم سے ملنا چاہتے تھے مگر ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اور ہم زیادہ دیر رُک نہیں سکتے تھے اس لیے یہ ایک چھوٹی سی تعارفی ملاقات تھی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نہ صرف طالب علم اردو بولتے اور سمجھتے ہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ہماری یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زیادہ تھی۔ ہم نے صبح ہی پروگرام میں بلو مسجد اور آیا صوفیہ کو شامل کرلیا تھا۔ ہمیں ٹرام یونیورسٹی کے سامنے سے مل گئی جس نے ہمیںi Blue Cami کے پاس اتار دیا تھا۔

    یہ ایک شان دار مسجد ہے جس کے ساتھ کئی ایک روایات بھی وابستہ ہیں۔ ہم جس وقت مسجد میں پہنچے وہ نماز سے کچھ دیر پہلے کا وقت تھا۔ آس پاس اتنا بڑا باغ اور اس میں بنی ہوئی راہ داری، پھولوں کی کیاریاں تھیں لگ رہا تھا ہم مسجد نہیں کسی باغ میں آگئے ہیں۔ جب ہم مسجد تک پہنچے اذان ہوچکی تھی۔ اندر داخلے کے لیے لائن میں لگنا پڑا پھر ہلکی پھلکی چیکنگ کا مرحلہ آگیا۔ وضوخانے میں بھی خاصا رش تھا۔ وہی عثمانیہ عہد کا طرزتعمیر۔ یہ استنبول کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

    اس وقت نماز کی صفیں بننی شروع ہوگئیں تھیں۔ خواتین کا حصہ پچھلی طرف تھا، آگے حضرات کا تھا، حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ حصہ مکمل بھرا ہوا تھا۔ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ میرے دائیں بائیں دو خواتین موجود تھیں، میں نے نماز کے بعد دو رکعت نماز کی نیت کرلی۔ جیسے ہی نماز ختم کی کسی نے مجھ سے بہترین انگریزی میں کہا،’’تم نے دو رکعت زیادہ ادا کی ہے۔ شاید تم بھول گئی تھیں۔‘‘ میں نے کہا،’’نہیں میں نے احترام مسجد میں یہ نماز ادا کی ہے۔‘‘ ایک نے دوسری کو عربی میں سمجھایا،’’ہم کو دو رکعت نماز اور پڑھنی چاہیے۔‘‘

    میں نے ان سے کہا،’’یہ ضروری نہیں ہے، یہ نفل ہوتے ہیں آپ کی مرضی پڑھیں نہ پڑھیں۔‘‘ مگر وہ تو میرے سر ہوگئیں کہ ’’آپ نے کیوں نفل پڑھے ہیں؟‘‘ پہلے بیٹی مجھ سے انگریزی میں بات کرتی پھر ماں کے لیے عربی میں ترجمہ کرتی۔ پھر ماں عربی میں کچھ کہتی۔ بیٹی انگریزی میں وہ بات مجھ سے پوچھتی۔ معلوم ہوا ماں اردن میں رہتی ہے اور بیٹی انگلینڈ میں، اب میرے پاس اتنی معلومات تو تھیں نہیں کہ ان کو کچھ بتا سکتی۔

    میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں اتنے میں ایک ترکش خاتون جو خاصی مذہبی لگ رہی تھیں انہوں نے مداخلت کی اور ان لوگوں کو اسلام کے متعلق اور اس مسجد کے متعلق معلومات فراہم کرنا شروع کردیں۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں کون سے دروازے سے آئی تھی اور جوتے بھی نہیں ملے کیوںکہ اسٹینڈ بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ میں ننگے پیر باہر آکر کھڑی ہوگئی۔ اب جو عزیز کی تلاش میں نظر گھمائیں تو وہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس وقت نہ میرے پاس پاسپورٹ تھا نہ رقم تھی کیوںکہ میں نے اپنا پاسپورٹ عزیز کے پاس رکھوا دیا تھا اور موبائل تو میں نے پورے سفر میں اپنے پاس رکھا ہی نہیں تھا۔

    اب نماز کے بعد لوگ مسجد کو گھوم پھر کر اس کا آرکیٹیکچر دیکھ رہے تھے اور میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ مجھے کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اماں آپ مجھے اسی دروازے کے پاس ملیے گا۔ مجھے بھی اندازہ ہوگیا کہ میں غلطی سے دوسرے دروازے سے نکلی ہوں پھر میں دوبارہ مسجد کے اندر گئی اور اندازے سے اسی دروازے کی طرف آگئی۔

    اب جو میں جوتوں کے اسٹینڈ کے پاس آئی تو جوتے غائب پائے۔ اپنے جوتے غائب دیکھ کر ہنسی بھی آگئی کہ یہاں ترکی میں بھی مسجدوں سے جوتے چوری ہونے کا رواج ہے۔ یہ تو امید تھی کہ بیٹا مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا۔ پھر بھی دل میں سوچا اﷲ کی بندی مسجد میں کھڑی ہے اور پریشان ہے۔ جس کی مسجد ہے اس سے مدد کیوں نہیں مانگتی۔ جلدی سے خواتین والے حصے کی طرف آکر دو رکعت نماز کی نیت کی۔

    اب جو نماز پڑھ کر اٹھی تو وہی دو خواتین سامنے نظر آگئیں۔ وہ مسکراتے ہوئے میری طرف آنے لگیں تو میں انہیں نظرانداز کرتی ہوئی دروازے کی سمت بڑھ گئی، جہاں عزیز صاحب میرے جوتے ہاتھ میں لیے کھڑے تھے۔ کیا عزیز کو بھی جوتے کھونے کا ڈر تھا؟ وہ کہنے لگا آپ نے اتنی دیر کردی کہاں تھیں۔

    میں نے اسے ساری کتھا کہانی سنادی۔ مجھے افسوس بھی ہوا کہ میں انہیں کچھ بتا نہیں پائی، مگر ادھورا علم کسی کو منتقل کرنا کونسا ثواب کا کام ہے۔ میں نے جلدی جلدی جوتے پہنے پھر ہم نے ایک چکر مسجد کا لگایا۔ بہت بھوک لگ رہی تھی۔ عزیز نے تصویریں لیں اور وہ بورڈ پڑھنے کی کوشش کی جس پر معلومات درج تھیں مگر وہ سب رومن میں تھیں، بھلا ہو گوگل بی بی کا کہ اس نے جو ترجمہ کیا اس سے معلوم ہوا کہ اس مسجد کا نام    Sultan Ahmad Camiiہے مگر اس کے رنگ کی وجہ سے اسے Blue Camii کہتے ہیں۔

    ہم اپنا پڑاؤ یہاں پر ختم کرتے ہیں مگر اگلے پڑاؤ پر جانے سے پہلے بتا دیں کہ ابھی ہم  Sultan Ahmad Camii میں موجود ہیں، سامنے آیا صوفیہ نظر آرہی ہے مگر پہلے کھانا کھالیتے ہیں۔ ترکی میں کھانے کی سہولت ہر جگہ موجود ہے۔ بے شک وہ مسجد ہو، کوئی میوزیم ہو، باغ یا تفریح گاہ ہر قیمت کا ہوٹل بڑا چھوٹا درمیانے درجے کا موجود ہوتا ہے۔ فاصلے بہت زیادہ ہیں مگر ہر جگہ بیٹھنے اور آرام کرنے کی سہولت موجود ہے۔ بینچیں لگی ہوئی ہیں اور گھاس کے صاف ستھرے قطعے اور قدم آدم درخت موجود ہیں جن کے سائے میں ہم آرام بھی کرسکتے ہیں۔

    پانی کے لیے بہت خوب صورت طرز کے پیاؤ ہیں جو عثمانی خلافت کے عہد کے ہیں مگر حکومت ترکی نے انہیں اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا ہے اور صفائی ستھرائی کا خیال بھی رکھا ہوا ہے۔ نہ کسی جگہ ڈنڈا لیے چوکی دار نظر آیا، نہ پولیس کی وین سائرن بجاتی ہوئی گزری، نہ ٹریفک پولیس کا سپاہی چوراہے پر ناچ دکھاتا نظر آیا مگر سگنل بند ہوتے ہی گاڑیاں رک جاتی تھیں اور پیدل چلنے والے سڑک کراس کرلیتے۔

    ہمیں اکثر باغ اور درختوں کے سائے میں مسافر، بیگ سر کے نیچے رکھے سوتے نظر آئے۔ استنبول میں شامی اور ازبک بہت آتے ہیں، اکثر روزگار کی تلاش میں، اس لیے ہوٹل افورڈ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں جگہ ملتی ہے وہاں آرام کرنے لیٹ گئے۔ ایک اور بات کہ ٹوائلٹ کی سہولت ہر جگہ موجود ہے۔

    وہ بھی جدید سہولت سے آراستہ ہوتے ہیں، کچھ حکومت کی طرف سے کچھ پرائیویٹ بھی ہوتے ہیں جہاں رقم دینی پڑتی ہے۔ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو ہمارے شہر کراچی میں تو بالکل ہی موجود نہیں ہے مگر مری، کاغان، ناران، ہنزہ وغیرہ میں اب کچھ سالوں سے ٹوائلٹ بنادیے گئے ہیں، ورنہ کچھ سالوں پہلے تو ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ خیر قومیں ایک دن یا ایک سال میں نہیں بنتی اس کے لیے بہت مشکلات سہنا پڑتی ہیں اور ترک قوم بھی صدیوں کی مشکلات سہنے کے بعد ایک قوم بن کر ابھری ہے۔